بلوچستان میں بسنے والے بلوچ عوام تو اپنے جغرافیائی محل و قوع کی وجہ سے بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ ایک طویل ساحل جس پر گوادر جیسی اہم ترین گہرے پانیوں کی بندرگاہ واقع ہے۔ ریکوڈک اور سنیدک کی طرح کے سونے اور تانبے کے ذخائر، تیل و گیس کے علاوہ معدنیات کا ایک وسیع خزانہ ان کے علاقے میں موجود ہے۔ سندھ اور پنجاب سے ملانے والی تمام شاہراہیں بلوچ علاقوں سے ہو کر گزرتی ہیں۔
بلوچستان میں میں بسنے والے کسی بھی پشتون نے اگر کراچی جانا ہو تو اسے کوئٹہ سے لک پاس کے راستے مستونگ، قلات، خضدار کے بروہی علاقے اور لس بیلہ کے بلوچ علاقے سے گزرنا ہو گا۔ اسی طرح سندھ اور پنجاب جانے کے لیے سبی، جعفر آباد اور نصیر آباد کی جانب سے ایک راستہ، ڈیرہ بگٹی اور کشمور کی طرف سے دوسرا، لورالائی اور بارکھان کی طرف سے تیسرا راستہ ہے اور یہ سب راستے بلوچ قبائل کی سرزمین سے ہو کر گزرتے ہیں۔ بلوچستان کا وہ حصہ جہاں پشتون آباد ہیں اس میں سے چند بلوچ علاقے مثلاً ڈیرہ بگٹی، کوہلو، بارکھان وغیرہ نکال کر باقی سب برٹش بلوچستان تھا۔ یہاں پر انگریز کی براہ راست حکومت قائم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے کے نظام سے لے کر آب پاشی تک تمام نظام ہائے کارتک انگریز نے یہاں پر ہی قائم کیے۔ کوئٹہ اس کا صدر مقام اور ہیڈکوارٹر تھا۔
یہ پشتون علاقہ پاکستان میں بھی ویسے ہی دیگر علاقوں میں گھرا ہوا ہے جیسے افغانستان دیگر ملکوں میں گھرا ہوا ہے اور اسے سمندر تک کوئی راستہ میسر نہیں ہے۔ پشتونوں کے علاقے سے واحد راستہ ژہوب کی جانب سے نکلتا ہے جو انھیں خیبرپختونخوا سے ملاتا ہے۔ بلوچستان میں آباد پشتون قبائل میں انگریز کے تقریباً ایک سو سالہ دور حکومت کی وجہ سے قبائلی نظام خاصا کمزور ہو چکا ہے اور سرداری نام کی تو کوئی چیز اس معاشرے میں باقی ہی نہیں رہ گئی۔ ایک نواب سے جو کاکڑوں کے جوگیزئی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی حیثیت بھی ایک علامت کے طور پر باقی ہے۔ پشتون جو پاکستان میں سرحد کی اس جانب بستے ہیں اور جو سرحد کی دوسری جانب ان کے درمیان مستقل خاندانی، کاروباری اور معاشی رشتے موجود ہیں۔ سرحد کے قریب علاقوں میں افغانستان سے آج بھی لوگ آ کر چھ ماہ کے لیے آباد ہوتے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔
انھیں یہاں کی زبان میں ’’ششماہی‘‘ کہتے ہیں۔ اسمگلنگ چونکہ بنیادی ذریعہ کاروبار ہے اس لیے اس کاروبار سے منسلک افراد کا ایک بھائی قندھار میں بیٹھا ہو گا تو دوسرا چمن میں، تیسرا کوئٹہ تو چوتھا جاپان یا سنگاپور وغیرہ میں۔ ان کا ایک نیٹ ورک ہے جو دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کے ساحلوں سے جو سامان افغانستان کے لیے ٹرین یا ٹریک پر روانہ ہوتا ہے اس میں سے کثیر تعداد صرف سرحد پار کرنے کی زحمت کرتی ہے اور پھر واپس پاکستان کی مارکیٹوں میں آ جاتی ہے اور اس سے اس ملک کے ہر شہر کی مارکیٹیں بھری ہوئی ہیں۔ اس سب کے باوجود بلوچستان کا پشتون، افغانستان کے پشتون قبائل سے بالکل مختلف ثقافتی اور انتظامی سانچے کا عادی ہو چکا ہے۔
اسے یہاں کورٹ کچہری اور پٹواری تحصیلدار کی عادت ہو چکی ہے اور وہ افغانستان سے آنے والے پشتونوں کو آج بھی جدید تہذیب سے دور کوئی آبادی تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چمن کے سرحدی شہر میں جب سردیوں میں افغانستان سے لوگ مزدوری کرنے کے لیے آتے ہیں تو لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ’’احتیاط کیا کرو، قندھاری لوگ آئے ہوئے ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے آنے والا افغان مہاجر پاکستان کے نسبتاً جدید ماحول میں تو رچ بس جاتا ہے لیکن پاکستان کا کوئی پشتون وہاں جا کر آباد نہ ہو سکا۔ پاکستان میں لاگو قانون اور افغانستان میں صدیوں سے بادشاہ کی مرضی ہی قانون کا بہت فرق ہے۔ اسی لیے شروع شروع میں جب افغان مہاجر یہاں آئے تو وہ جیل کے نام سے بہت ڈرتے تھے۔
ان کے نزدیک جیل جانے کا مطلب یہ تھا کہ اب یہ ساری عمر وہیں گزارے گا۔ ہاں اگر حاکم کو اس پر رحم آ جائے یا پھر حاکم بدل جائے اور وہ قیدیوں کی رہائی کا حکم دے دے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کا پشتون بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس کا پاکستان کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ زیارت، پشین، لورالائی، ژہوب اور ہرنائی کے پھل اسی ملک کی شاہراہوں کے ذریعے دنیا بھر میں فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی اب تو پاکستان کا کوئی بھی بڑا شہر ایسا نہیں جس میں پشتونوں کی ایک کثیر تعداد موجود نہ ہو۔ لاہور شہر کے قدیمی اندرون لاہور میں تقریباً چالیس فیصد پشتون آباد ہیں کیونکہ بادامی باغ کے بس اور ٹرک اڈے سے ان کا کاروبار وابستہ ہے۔ کراچی، فیصل آباد، راولپنڈی اور ملتان جیسے شہروں میں ان کی موجودگی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے تین دہائیاں قبل پشتونستان کا جو نعرہ زور و شور سے لگایا جاتا تھا اب دم توڑ چکا ہے۔ خیبرپختونخوا جو اس کا مرکز تھا اس میں بھی اب اس نعرے کی گونج تک سنائی نہیں دیتی۔
بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قبائل پاکستان کی دیگر اقوام پنجابی یا سندھیوں سے کہیں بہتر طور پر یہ حقیقت جانتے ہیں کہ وہ اپنے پڑوس افغانستان اور ایران سے کس قدر بہتر اور باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں قوم پرست نعرے بھی حکومتی الیکشن کے لیے لگتے ہیں۔ ایک الیکشن میں قوم پرست جیتتے ہیں اور دوسرے الیکشن میں ان کا صفایا ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کے علاقے کو ایک صوبہ نہیں بلکہ ایک سرحدی اور خصوصی اہمیت کا حامل ”Strategic” علاقہ سمجھا ہے۔ اسی لیے انگریز سے لے کر آج تک ان کی خواہش یہ رہی ہے کہ چونکہ اس علاقے سے ہم نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہے اس لیے یہاں پر حکومت ہمارے وفادار لوگوں کی ہونا چاہیے۔ انگریز نے وفاداری کی شرطیں اتنی سخت اور کڑی نہیں رکھی تھیں جتنی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے رکھ دی ہیں۔ وہاں قبائل کی آزادی اور نیم خود مختاری موجود تھی لیکن یہاں تو مکمل تابعداری کی شرط رکھ دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ قبائل کے اندر جو ذاتی دشمنیاں ہوتی ہیں، اسٹیبلشمنٹ ان میں اپنے وفادار ڈھونڈتی ہے۔
انھیں پالتی ہے اور جو بھی ذرا سر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اسے اسی کے مخالفین سے زیر کراتی ہے۔ وہ اپنی قبائل دشمنی میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور یوں آپ اپنی مرضی کے شخص کو یہاں کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیتے ہیں۔ یہ بیک وقت ایک گروہ کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ سب سے خفیہ آشنائیاں رکھی ہوتی ہیں۔ اسی لیے لوگ اس ’’چالباز حسینہ‘‘ جسے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں کے پرفریب جال میں آتے رہتے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کا سانحہ انھیں پالیسیوں کی واضح مثال ہے۔ ان کے بعد وہ قبیلہ جو ایک نواب کے زیر سایہ متحد تھا، آج مکمل طور پر بٹ چکا ہے۔ ان کی موت کے بعد ’’مسوری‘‘ اور ’’کلپر‘‘ قبیلوں کے بگٹی سرکاری اقتدار پر بھی براجمان ہیں اور قبائلی اقتدار کی راہداریوں میں بھی جلوہ گر۔
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے