ہوم << ابھرتے "اسلامی جمہوریہ عجم" کی خاکہ نگاری - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ابھرتے "اسلامی جمہوریہ عجم" کی خاکہ نگاری - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

نام پر توجہ مت کیجئے، حرف آخر نہیں ہے۔ ہمارے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مرحوم ایوب کھوڑو نے 1947ء کی دستوریہ میں مسلم جمہوریہ پاکستان قرار دیا تھا۔ طاقت کے ابھرتے مراکز کے کیک میں زیادہ کا حصہ دار کون ہوگا؟ جس کی لاٹھی اس کی بھینس! یہ طاقتوروں کی طرف سے طاقت کی وکالت ہوگی۔ کچھ کے خیال میں حصہ بقدر جثہ! یہ نکمے، ناکارہ, یا کہہ لیجئے، کشکول بردار صلح کل لوگوں کا آوازہ ہو گا۔ لیکن میں جھپٹ کر شاد عظیم آبادی کے ساتھ جا کھڑا ہو گیا:

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

پاکستان دہشت گردوں اور بھارت سے مدتوں پنجہ آزمائی کرتے کرتے اب کندن بن چکا ہے۔ سوا دو سو سال قبل 12 ممالک کی امت لادینیہ آج 50 ممالک کی ریاست ہائے متحدہ بن کر کینیڈا اور گرین لینڈ پر میلی نظریں جمائے ہوئے ہے۔ چند ممالک اور ننھے منے دیہی رقبوں کا ڈھیلا ڈھالا معاشی کلب آج یورپی یونین نامی ملک کہلاتا ہے۔ تو تین عظیم الجثہ ممالک اسلامیہ کے ”اسلامی جمہوریہ عجم“ کہلانے میں آخر کیا رکاوٹ ہے؟ پیش گوئیاں اجرام فلکی والوں کو سزا وار ہیں۔ لیکن گمان کہتا ہے کہ امت مسلمہ کے اس اتحاد کا آغاز ادھر اپنے ہاں کے عجم ہی سے ہوگا۔

تین اسلامی جمہوریتوں افغانستان، ایران اور پاکستان کی سرحدیں باہم متصل ہیں۔ تفصیلاً پہلے عرض کر چکا ہوں کہ امت کو حکام یا بادشاہوں پر کبھی محمول نہ کیجئے۔ تینوں ممالک کے عوام اپنے جملہ حکام سے ہمیشہ نالاں رہے ہیں۔ لیکن امت کا سنتے ہی کلیتاً متحد بلکہ توالد الاجسام دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر ممالک کی اہمیت بھی مسلم ہے لیکن ان پر آئندہ کبھی بات ہو گی۔ زیر نظر گفتگو انہی تین ممالک سے عبارت ہے۔ حالیہ ایران اسرائیل جنگ سے برادر اسلامی ملک ایران کے آیت اللہ حضرات نے یقینا کچھ فکری سبق سیکھ لیا ہوگا۔ اللہ کرے وہ کانٹے دار پر پیچ مسلکی گھاٹیوں سے نکل کر اپنی توانائیوں کا رخ قران و سنت کی جانب کر دیں۔

افغان امور میں ہمارے کسی ایک ادارے نے بگاڑ پیدا نہیں کیا۔ سبھی ایک سے ایک بڑھ کر رہے ہیں۔حکام کے صوابدیدی فنڈ سے صحافیوں کو نوازنے کا از خود نوٹس سپریم کورٹ میں زیر بحث تھا۔ چیف جسٹس نے بیک جنبش قلم انتظامیہ کے تمام صوابدیدی فنڈ ختم کر دیے۔ اس فیصلے کے عالمگیر لیکن نا دیدہ اؤر بھیانک نتائج نکلے۔ دیگر سفارتخانوں کی طرح افغانستان میں بھی ہمارے سفارت کار وہاں کے ذرائع ابلاغ پر صوابدیدی فنڈ سے بساط بھر خرچ کیا کرتے تھے۔ اس حکم نامے کے بعد یہ میدان کلیتاً بھارت کے ہاتھ میں چلا گیا۔ افغان رائے عامہ بھارت کے حق میں اور پاکستان مخالف بنتی چلی گئی۔ آج افغان عوام کا کچھ عنصر اگر ہمارا مخالف ہے تو اس کا بڑا سبب یہی حکمنامہ ہے۔

تینوں ممالک کے حکمرانوں کو ذرا دیر کے لیے الگ کر دیجئے۔ ان کے عوام آن واحد میں بغل گیر ہو جائیں گے۔افغان عوام بد قسمتی سے اپنے سرداروں اور حکام کے شکنجے میں بے بس ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ہمارا موجودہ سیاسی بندوبست فکر اسلامی کے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔ روزمرہ مختصر المیعاد مقاصد کی خاطر طالبان حکام سے ریاست کی سفارت ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ لیکن طویل المیعاد بنیادوں پر افغان عوام پر بھی توجہ دینا کہیں اہم ہے۔ پلاننگ کمیشن کے سابق رکن اور ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر طاہر حجازی کے خیال میں دونوں ممالک کی جامعات کے طلباء اور اساتذہ کے تعلیمی وفود تسلسل سے ایک دوسرے کے ہاں جانا چاہئیں۔

ٹوٹے پھوٹے افغان ریاستی ڈھانچے میں سڑکوں عمارتوں کی تعمیر میں پاکستان بلا شبہ مدد دے رہا ہے۔ لیکن ڈاکٹر حجازی کہتے ہیں کہ اپنی ہر سرکاری یونیورسٹی میں کم از کم 20 افغان طلبا کو اسکالرشپ دیا جانا چاہیے۔ یوں سالانہ 20 - 30 ہزار ”پاکستانی سفیر“ افغان نظام کا حصہ بنیں گے. اس تجویز کو فیسوں کی مالیت سے جوڑنا پنساری والی سوچ ہو گی کلاس میں 35 مقامی طلبا کے ساتھ دو افغان بھی بیٹھ جائیں تو استاد کو کچھ اور نہیں دینا ہوتا۔اس طویل منصوبے کے نتائج یقیناً دیر سے نکلیں گے لیکن اتنے پائیدار ہوں گے کہ پھر پاک افغان تعلقات میں رخنہ اندازی ناممکنات میں سے ہو گی۔ ہمارے ان چھ آٹھ ارب روپے سالانہ سے ہر علاقے کے افغان مستفید ہوں گے جبکہ اس سے کہیں زیادہ ہم جلال آباد کابل شاہراہ پر لگا چکے ہیں جو ایک مختصر علاقے کی ضرورت ہے۔

ہمارے دو صوبوں میں دم توڑتی شورش سے قطع نظر، اندرون و بیرون ملک آج ہمیں کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔حالیہ جنگ میں کامیابی پر اسلامی دنیا میں آرمی چیف کی خوب پذیرائی ہوئی ہے۔ امید واثق ہے کہ ہمارے فیلڈ مارشل صاحب روز مرہ سفارت کاری سے اوپر اُٹھ کر افق کے پار دیکھتے ہوئے اپنی کچھ توانائی کا رخ ”اسلامی جمہوریہ عجم“کی طرف کریں گے۔ اول خویش بعد درویش کے سہارے یہ کام اپنے دو پڑوسی ممالک ہی سے شروع ہوگا۔ پاکستان کی آئینی وسعت قلبی ان دونوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کنبے کے بڑے اپنے چھوٹوں کی خطاؤں سے درگزر کرتے ہوئے خاندان کو متحد رکھتے ہیں۔ رہے باقی 54 مسلم ممالک تو عرض ہے کہ آپ بسم اللہ تو کیجئے۔ 12 ریاستوں کی امریکی یونین میں یکے بعد دیگرے 38 دیگر ممالک از خود شامل ہوئے تھے۔

بسم اللہ کیجئے، بقیہ54 مسلم ممالک امت مسلمہ کے اس عالمگیر اتحاد میں شامل ہو کر رہیں گے۔جب ابلتے اچھلتے متلاطم سمندروں میں مالدیپ اور مارشل آئی لینڈ غرقاب ہونے کے قریب ہیں تو ننھے منے شہنشاہی جزیرے خوفناک جمہوری لہروں سے کب تک خود کو بچا پائیں گے؟