ہوم << حسینؓ.... چراغِ حق، نشانِ وفا - محمد عدنان

حسینؓ.... چراغِ حق، نشانِ وفا - محمد عدنان

جب تاریخِ انسانیت ظلم کے سائے میں سسک رہی تھی، جب طاقت کو حق سمجھا جانے لگا تھا، اور جب خلافت، ملوکیت کے در پر سجدہ ریز ہو رہی تھی، تب کربلا کے ریگزار پر ایک صدا بلند ہوئی .
"مثلی لا یبایع مثله!" (میرے جیسا، اُس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا!)

یہ صدا حسینؓ ابن علیؓ کی تھی .... وہ حسینؓ، جو مصطفیٰ ﷺ کے بوسوں سے مہکا،جو زہرا بتولؓ کی آغوش میں پلا، جو علیؓ کی شجاعت اور حسنؓ کی متانت کا حسین امتزاج تھا۔ جسے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"حسین منی و انا من حسین" (حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں)

حسینؓ کی زندگی صبر، تقویٰ، علم، حلم اور قربانی سے مزین تھی۔ وہ نہ صرف اہل بیت کے چشم و چراغ تھے بلکہ امت کے لیے صداقت، عدل اور دین کی بقا کی علامت بھی۔

کربلا.... جہاں زمین و آسمان روئے جب یزید جیسا فاسق، امتِ محمدیہ ﷺ کی باگ ڈور سنبھالنے لگا، تو حسینؓ خاموش نہ رہے۔ وہ جانتے تھے کہ خاموشی کا مطلب باطل کو حق سمجھنے کا اقرار ہے۔ مدینہ سے مکہ، اور مکہ سے کوفہ کا سفر، حسینؓ نے دین کی بقا کے لیے کیا، نہ کہ اقتدار کی خواہش میں۔

10 محرم 61 ہجری، تپتے ریگستان، پیاسے لب، بھوکے بچے، اور سامنے تلواریں لیے ظلم کے پجاری۔ حسینؓ نے سر کٹوا دیا.... مگر دین کا پرچم جھکنے نہ دیا۔ اکبر، عباس، قاسم، اور چھ ماہ کے علی اصغر، سب قربان کر دیے،مگر کلمۂ حق بلند رکھا۔

کربلا صرف ایک معرکہ نہیں، ایک پیغام ہے!
یہ پیغام ہے کہ باطل کے سامنے جھکنے سے بہتر ہے شہید ہو جانا۔ دین پر آنچ آئے تو سب کچھ قربان کرنا سیکھو۔

حسینؓ آج بھی زندہ ہیں، ہر حق پرست دل میں!
کربلا بتاتی ہے کہ صرف نمازیں نہیں، کردار بھی نماز جیسا ہونا چاہیے۔ آئیے! ہم بھی حسینؓ کی راہ اپنائیں، باطل سے نفرت،اور حق سے محبت کریں، سچ بولیں، عدل کریں، اور دین کے لیے کھڑے ہوں، چاہے کربلا کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔