ہوم << امام حسینؓ کا انکار ،جب دین نظامِ باطل کے مقابل کھڑا ہوا . خدیجہ طیب

امام حسینؓ کا انکار ،جب دین نظامِ باطل کے مقابل کھڑا ہوا . خدیجہ طیب

حسینؓ منی و أنا من حسین .... قیامِ حسینؓ، امت کے ضمیر کے نام

کبھی کبھی نبی کے ایک جملے میں پوری امت کی ہدایت چھپی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "حسین منی و أنا من حسین، أحب اللہ من أحب حسیناً، حسین سبط من الأسباط" یعنی: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت رکھے، حسین میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔

یہ صرف محبت کا اظہار نہیں، بلکہ ایک اعلان تھا کہ حسینؓ کا وجود صرف خون کا رشتہ نہیں بلکہ دین کی حفاظت کا ستون ہے۔ "حسین منی" یعنی حسینؓ میری ذات کا تسلسل ہیں، اور "وأنا من حسین" یعنی میں حسینؓ کے کردار سے پہچانا جاؤں گا، ان کے ذریعے میری امت کی نجات وابستہ ہے۔یہ اس وقت کہا گیا جب کربلا ابھی وجود میں نہیں آئی تھی، مگر رسولِ خدا ﷺ جانتے تھے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب خلافت، جو شورٰی اور عدل پر مبنی تھی، اسے ملوکیت میں بدلا جائے گا۔ دین کو موروثی اقتدار کا لباس پہنایا جائے گا۔ اور جب ایسا وقت آئے گا تو ایک حسینؓ اٹھے گا، جو خاموش نہیں رہے گا، کیونکہ وہ نانا کے دین کی غیرت رکھتا ہوگا۔

حضرت معاویہؓ کے بعد جب یزید کو ولی عہد بنایا گیا، تو خلافت کا مزاج ہی بدلنے لگا۔ جس خلافت کی بنیاد نبی ﷺ نے رکھی تھی، جہاں حق و باطل کا فرق واضح تھا، وہاں اب ظلم و فسق تخت پر براجمان تھا۔ یزید محض ایک شخص نہیں تھا، وہ ایک ایسا نظام تھا جو دین کو دربار کے اشاروں پر چلاتا تھا، جو طاقت کی بنیاد پر امت پر حکومت کرنا چاہتا تھا۔

حسینؓ خاموش کیوں نہ رہے؟
امام حسینؓ مدینہ میں تھے۔ وہ چاہتے تو خاموشی سے زندگی گزار سکتے تھے۔ ان کے انکار سے یزید کا نظام فوراً نہیں ٹوٹنا تھا۔ لیکن حسینؓ جانتے تھے — کہ یزید کی بیعت، دین کی موت ہوگی۔ اور خاموشی، سب سے بڑی غداری۔ چنانچہ وہ مکہ کی جانب روانہ ہوئے، وہاں سے کوفہ کا ارادہ کیا۔ ان کا اعلان بالکل واضح تھا:
"میں اس لیے نکل رہا ہوں کہ امت کی اصلاح کروں، نیکی کا حکم دوں، برائی سے روکوں، اور اپنے نانا رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو زندہ کروں."

یہ اعلان تلوار کا نہیں، شعور کا تھا۔ حسینؓ نے صرف اتنا کہاکہ میں یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کے ہاتھ میں دین کا اختیار آ گیا تو امت گمراہی کی اندھیری کھائی میں گر جائے گی۔ کربلا کوئی سیاسی معرکہ نہیں تھا۔ یہ امت کے اندر بیداری کی جنگ تھی۔ حسینؓ کے پاس فوج نہیں تھی، وہ صرف سچ کے ساتھ تھے۔ لیکن باطل کے لیے سب سے بڑی تلوار سچ ہوتا ہے۔ اس لیے یزید نے حسینؓ کے قافلے کو پانی تک سے محروم کر دیا، یہاں تک کہ بچوں کے ہونٹ سوکھ گئے، خیمے جل گئے، لاشیں بے کفن رہ گئیں. مگر ایک چیز نہ جل سکی، نہ دب سکی اور وہ تھی حسینؓ کا انکار۔اسی انکار نے دین کو بچا لیا۔ اسی انکار کی بدولت نبی ﷺ کا پیغام تا قیامت محفوظ ہوا۔ اسی انکار نے امت کو سکھایا کہ جہاں دین کی روح کو پامال کیا جائے، وہاں خاموش رہنا گناہ ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا انقلاب ، نظام کو چیلنج کرنے والی سنت
یہی انکار، یہی بغاوت، یہی اصلاح.... سب سے پہلے خود رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں کی تھی۔ جب اہلِ مکہ بتوں کے نظام کو دین کہتے تھے، جب سرمایہ دار قبائل ظلم کو قبیلہ پرستی کے نام پر جائز سمجھتے تھے، تو نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہو کر اعلانِ توحید کیا۔ یہ محض مذہبی اعلان نہیں تھا، بلکہ پورے نظامِ جاہلیت کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا۔آپ ﷺ نے ظلم کو ظلم کہا، کمزوروں کو حق دلایا، عورت کو مقام دیا، معیشت کو سود سے پاک کیا، عدل و شوریٰ پر مبنی نظام قائم کیا۔ اور اسی لیے سردارانِ قریش آپ ﷺ کے دشمن بنے۔

امام حسینؓ اسی نبویؐ مشن کے وارث تھے۔ ان کا قیام کسی ذاتی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ اسی نبویؐ سنت کا تسلسل تھا کہ جب نظام بگڑ جائے، دین کو موروثی اقتدار کا تابع بنا دیا جائے، تو سچ بولنا فرض ہے، چاہے اس کی قیمت جان ہو۔

ہم کس صف میں کھڑے ہیں؟
آج ہم حسینؓ کے نام پر ماتم کرتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، نوحے پڑھتے ہیں۔ لیکن جب ہمارے ارد گرد تعلیم کو کاروبار بنا دیا جائے، قرآن کو سیاست کے نعرے میں بدل دیا جائے، دین کو صرف لبادہ بنایا جائے ،تو کیا ہم خاموش رہتے ہیں؟ اگر ہاں، تو ہم کس صف میں ہیں؟ حسینؓ کے یا تماشائیوں کے؟قرآن ہمیں جھنجھوڑتا ہے:
"اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے." (آل عمران 104)

یہی تو حسینؓ کا پیغام تھا۔ یہی وہ روشنی ہے جو آج بھی ہر بیدار دل کو پکارتی ہے۔ یزید آج بھی زندہ ہے — بینکوں کے سودی نظام میں، میڈیا کی خباثت میں، سوشل کلچر کی بے حیائی میں، سیاست کی ہوس میں۔اب اگر ہم بھی خاموش رہے، تو کربلا کے بعد سب سے بڑی شکست ہماری ہوگی۔ یہ تحریر کربلا کے لیے آنسو نہیں مانگتی، یہ آپ کے ضمیر سے سوال کرتی ہے:
کیا آپ نے سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کی قیمت ادا کی؟
کیا آپ نے ظلم کو ظلم کہا؟
کیا آپ نے دین کو صرف عبادات میں سمیٹ کر چھوڑ دیا، یا سسٹم کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایا؟
کیا آپ حسینؓ کے وارث ہیں یا صرف نوحہ گر؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو حسینؓ سے محبت کرے گا، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے… اور جو حسینؓ سے دشمنی کرے گا، وہ مجھ سے دشمنی کرے گااور جو حسینؓ سے جنگ کرے گا، وہ مجھ سے جنگ کرے گا" (مسند احمد، مستند روایت)

اب فیصلہ آپ کا ہے کہ قیامت کے دن آپ کس کی صف میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔
یزید کے دربار میں؟
یا حسینؓ کے خیمے میں؟

اور یاد رکھئےکہ آج دنیا بہادری، استقامت اور سچائی کی مثال دیتی ہے، تو حسینؓ کا نام لیتی ہے اور جب فریب، جبر اور بزدلی کی علامت بتانی ہو، تو یزید یاد آتا ہے۔ وقت کے ساتھ صرف کردار بچتے ہیں اور کردار ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم تاریخ میں کیسے یاد رکھے جائیں گے۔