ہوم << کرسی کا خمار اور کردار کی پھسلن - ادیب احمد راؤ

کرسی کا خمار اور کردار کی پھسلن - ادیب احمد راؤ

دفاتر میں ترقی کی نوید بظاہر کسی کے لیے مسرت، ادارے کے لیے کامیابی، اور نظم و نسق کے لیے تازگی کا پیغام ہوتی ہے، مگر یہی نوید بعض اوقات شخصی اخلاق کا ایسا کڑا امتحان بن جاتی ہے، جس میں کم ہی لوگ سرخرو ہو پاتے ہیں۔ ادارہ جب کسی خاک نشین کو منصبِ افسری پر فائز کرتا ہے تو دراصل اُس کے ظرف کا پیمانہ جانچتا ہے۔

مگر اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نیا عہدہ ملتے ہی کچھ افراد کے رویے میں ایسا تغیر آتا ہے جو اُن کی اصل شخصیت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیتا ہے۔وہی شخص، جو کل تک ساتھیوں کے ساتھ نشست و برخاست میں خاکساری، انکسار اور اخلاص کا پیکر دکھائی دیتا تھا، آج جب اُس کے کندھے پر "عہدے" کا تمغہ سجتا ہے تو اُس کی زبان میں ترشی، لہجے میں رعونت، اور رویے میں تکبر در آتا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں سے یوں پیش آتا ہے گویا وہ اس کے ماتحت نہیں بلکہ کسی جاگیردار کے خاندانی غلام ہوں۔ وہ بھول جاتا ہے کہ عہدے بدلتے رہتے ہیں، مگر رویے ہی انسان کو یادگار بناتے ہیں۔ایسے افراد کے لیے ایک بزرگ کا قول پتھر پر لکیر کی حیثیت رکھتا ہے:

"اگر لوگ تمہیں صرف تمہارے منصب کی وجہ سے عزت دیتے ہیں، تو تم عبرت کا نمونہ ہو، باعثِ احترام نہیں۔"
کچھ ترقی یافتہ افسران کا حال تو اس سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ وہ اپنے سینئرز کے سائے سے بھی خار کھانے لگتے ہیں اور اُن سے آگے نکلنے کے جنون میں اخلاقیات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ چاپلوسی، سازش اور موقع پرستی اُن کا شیوہ بن جاتی ہے۔ ان کی ترقی، ادارے کی ترقی نہیں بلکہ اخلاقی پستی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔اور پھر وہ طبقہ بھی ہے جنہیں دوسروں کی تذلیل سے سکون ملتا ہے۔ ماتحتوں کی عزت نفس کو پامال کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا وقار بلند ہو رہا ہے، حالانکہ وہ اپنی اخلاقی پستی کو خود ہی سب پر آشکار کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں نہ ادارہ دل سے قبول کرتا ہے، نہ ساتھی یاد رکھتے ہیں، نہ تاریخ میں ان کا کوئی مقام ہوتا ہے۔وقت کا پہیہ گھومتا ہے، اور وہی ماتحت جنہیں وہ خاک سمجھتے تھے، کل ان کے برابر یا بالا بھی ہو سکتے ہیں۔ اُس دن اُن کے رویے کی گواہی وہی لوگ دیں گے جنہیں وہ آج نظرانداز کر رہے ہیں۔ کرسی تو چند روزہ مہمان ہے، مگر انسان کا سلوک اُس کی پہچان بن کر ہمیشہ کے لیے باقی رہتا ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ ترقی کے بعد بھی انسانیت، انکسار، اور شرافت کو نہ چھوڑا جائے۔ منصب اگر کردار کو نگل جائے تو وہ زینت نہیں، وبالِ جان بن جاتا ہے۔ افسری کا اصل وقار اُس وقت ہے جب ماتحت دل سے دُعائیں دیں، نہ کہ دانت پیستے رہیں۔

Comments

Click here to post a comment