وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سوات کی خوبصورت وادی، جہاں ہر سال ہزاروں سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں، 27 جون 2025 جمعہ کے دن ایک اندوہناک سانحے کا گواہ بنی۔ ایک ہی خاندان کے سترہ افراد دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ یہ واقعہ نہ صرف علاقے کے لوگوں بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے، جس نے سیاحتی مقامات پر حفاظتی انتظامات اور احتیاطی تدابیر کی اہمیت کو پھر سے اجاگر کر دیا ہے۔
اس سانحے کی کئی وجوہات سامنے آئیں ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ مون سون کی بارشوں کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ ایک جگہہ بارش ہوتی ہے اور قریب ہی دوسری جگہہ دھوپ نکلی رہتی ہے۔ جائے حادثہ پر بھی اُس وقت بارش نہیں ہو رہی تھی اور دریا میں بہت سی جگہیں خشک تھیں، اس لیے سیاحوں کو کسی خطرے کا اندازہ نہ ہو سکا لیکن دریا کے بالائی علاقوں مالاکنڈ ڈویژن وغیرہ میں شدید بارشیں ہوئیں، جن کا پانی تیزی سے نیچے آیا اور اچانک دریا میں طغیانی آ گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ خاندان دریا کے کنارے بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا کہ ان میں سے کچھ افراد دریا کے بیچ ایک خشک اور قدرے اونچی جگہہ کی طرف گئے۔
مقامی لوگوں نے انہیں آگے جانے سے منع بھی کیا لیکن وہ تصویریں اور ویڈیوز بنانے کے شوق میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ جب پانی کا ریلا آتا نظر آیا، تب بھی وہ تصویرین اور مووی کلپس بنانے میں مصروف رہے۔ اس لاپرواہی اور شوق نے انہیں بروقت محفوظ مقام کی طرف پلٹ جانے سے روک دیا، جس کا نتیجہ اتنے بڑے سانحے کی صورت میں نکلا۔ ریسکیو ٹیموں کو بھی اطلاع دیر سے ملی، اور پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ روایتی کشتیوں یا آلات سے امداد ممکن نہ رہی۔ مقامی انتظامیہ نے پہلے ہی سیلاب کی وارننگ جاری کر رکھی تھی، مگر اس پر مکمل عملدرآمد نہ ہو سکا۔
دریا کے کنارے ہوٹلوں اور بیٹھنے کی جگہوں کو ہٹانے کی ہدایات بھی ہر سال کی طرح دی گئی تھیں لیکن کئی مقامات پر یہ ہدایات ہمیشہ کی طرح نظر انداز ہوئیں۔ ریسکیو ٹیموں نے کوشش کر کے چار افراد کو بچا لیا جب کہ بارہ لاشیں، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے، نکال لی گئیں لیکن ایک فرد کی لاش ابھی تک نہیں مل سکی۔ گو کہ اس واقعے میں سب سے بڑی کوتاہی ان افراد کی اپنی ہی تھی لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ سیاحوں کو مون سون کی بارشوں کے اس خاص انداز، ممکنہ سیلابی ریلے اور حفاظتی تدابیر سےپوری طرح آگاہ نہیں کیا جاتا۔ اگر مقامی انتظامیہ یا ہوٹل مالکان ان مقامات پر رکاوٹیں لگا کر سیاحوں کو دریا کے اندر جانے سے روک دیں تو شاید اتنا بڑا نقصان نہ ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سیاح دراصل سیالکوٹ سے ناران جانے کے ارادے سے گھروں سے نکلے تھے، لیکن راستے میں پروگرام بدل گیا اور وہ سوات رک گئے۔ شاید موت انہیں خود اس طرف لے آئی تھی۔ یہ واقعہ دنیا کی بے ثباتی اور انسان کی بے بسی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ انسان کیا کیا پروگرام بناتا ہے اور اللہ کی منشاء کیا ہوتی ہے اس کا کسی کو علم نہیں۔ سانحہ دریائے سوات پر بات کرنا ازحد ضروری ہے کیونکہ اس میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور انتظامیہ کی غفلت بھی سامنے آئی ہے۔ حکومت نے کچھ افسروں کو معطل کیا ہے اور انکوائری کمیٹی بھی بنی ہے لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح صفر ہی نکلے گا۔
اکثر أوقات ایسا ہو چکا ہے کہ کوئی حادثہ رونما ہونے کے فوراً بعد سب مشینری حرکت میں آ جاتی ہے رپورٹیں بنتی ہیں اور کسی عملی اور پائیدار حل کے بغیر داخل دفتر ہو جاتی ہیں۔ اس وقت بھی مرکزی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو مورودِ الزام ٹھہرا رہی ہیں لیکن اصل ذمہ داری یہ ہے کہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچاؤ پر بات چیت ہو اور ان کے سدِباب کے لئے ٹھوس انتظامات کئے جائیں۔
سوات کا یہ سانحہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ قدرتی آفات کے خطرات کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر سیاحتی علاقوں میں۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ سیلابی علاقوں میں واضح وارننگ سسٹم، جدید ریسکیو آلات اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائے۔ سیاحوں کو بھی چاہیے کہ وہ موسم کی صورتحال اور مقامی ہدایات پر عمل کریں، اور دریا کے قریب غیر ضروری رسک نہ لیں۔ یہ واقعہ صرف ایک خاندان کا نقصان نہیں، بلکہ پوری قوم کے لیے ایک وارننگ ہے کہ احتیاط اور بروقت اقدامات سے ہی ایسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے۔
امید ہے کہ اس حادثے کے بعد متعلقہ ادارے اور عوام دونوں زیادہ ذمہ داری اور ہوشیاری کا مظاہرہ کریں گے، تاکہ آئندہ اس طرح قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔
تبصرہ لکھیے