ہوم << اسرائیل کا اگلا ہدف پاکستان، حکمت عملی کیا اپنائیں؟. روح اللہ سید

اسرائیل کا اگلا ہدف پاکستان، حکمت عملی کیا اپنائیں؟. روح اللہ سید

امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو ایک بار پھر حملے کی دھمکی دے دی، کہتے ہیں تہران نے ایٹمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں تو امریکہ ایک بار پھر بم برسائے گا۔
اس سے قبل ٹرمپ کی جانب سے یہ پیشکش بھی سامنے آئی تھی کہ ایران اگر یورینئم کی افزودگی روک دے تو اسے 30ارب ڈالر فراہم کرنے کو تیار ہیں۔
حالیہ ایران-اسرائیل جنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان ممالک کیلئے "دھمکی اور لالچ" کی پالیسی کھل کر سامنے آ گئی۔ اسرائیل نے جب جنگ شروع کی اور ایران کی ٹاپ ملٹری قیادت اور ایٹمی سائنس دان قتل کر دیئے تو ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا کہ ایران جوابی کارروائی نہ کرے مگر ایرانی افواج نے کسی ڈر، خوف کا شکار ہوئے بغیر میزائل برسائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا دھمکی آمیز لہجہ تبدیل کرنا پڑا اور 12 روز بعد بالآخر جنگ بندی پر مجبور ہو گئے۔

جنگ کے دوران ایران کے حملوں نے اسرائیل میں جو تباہی مچائی اسے یورپی میڈیا غزہ جیسی صورتحال سے تعبیر کر رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کیٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو جنگ میں 12 ارب ڈالر کے جنگی نقصانات جبکہ مالی و اہداف کا تخمینہ لگایا جائے تو بات 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد جس نے پوری دنیا میں دہشت پھیلا رکھی ہے اس کا ہیڈ کوارٹر، اسرائیلی فوج کا ہیڈ کوارٹر اور حیفہ کی عالمی شہرت یافتہ بندرگاہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض اسرائیلی شہریوں کی جانب سے جمع کروائے گئے پراپرٹی کلیمز کی تعداد 31 ہزار سے زائد ہے جو جنگی اخراجات میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے۔ نیتن یاہو کے نقصانات چھپانے کی سخت کوششوں کے باوجود اسرائیل کے ہزاروں شہری زخمی ہوئے اور 12 روز تمام غاصب شہری دہشت کے ماحول میں رہے کہ کسی بھی وقت کوئی میزائل آ کر موت کے گھاٹ نہ اتار دے۔

جنگ میں سب سے بڑا نقصان جو اسرائیل کو پہنچا وہ آئرن ڈوم کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم پاش پاش ہونا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو سمیت اسرائیلیوں کو آئرن ڈوم سمیت میزائل دفاعی نظام پر بڑا گھمنڈ تھا اور صیہونیوں نے اس کے ذریعے مشرق وسطی میں ایسا دہشت کا ماحول بنا رکھا تھا کہ عرب حکمران اسرائیل سے لڑائی کے نام پر ہی کانپنے لگتے تھے مگر حالیہ جنگ کے دوران آئرن ڈوم کے میزائل بھی تباہ کر دیئے گئے اور صرف ان میزائلوں کی مد میں ہی اسرائیل کو 400 ملین ڈالر کا خسارہ ہوا۔

رپورٹس کے مطابق ایرانی افواج کیلئے اسرائیل پر حملہ اتنا مشکل بنا دیا گیا کہ جونہی میزائل فائر کئے جاتے تو خلیج میں موجود امریکی بحری بیڑے ان میزائلوں کو مار گرانے کی کوشش کرتے۔ جو ایرانی میزائل یہاں سے بچ نکلتے انہیں عراق میں موجود امریکی اڈوں سے روکا جاتا رہا۔ ان میں سے بھی جو بچے انہیں مسلم ملک اردن کا میزائل دفاعی نظام مار گراتا۔ اس سب کے باوجود اسرائیل کا مشہور زمانہ دفاعی نظام آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلنگ، ایرو 2، ایرو 3 بھی ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہے حتی کہ میڈٹرینئن میں کھڑے امریکی اور برطانوی بحری بیڑے بھی ایرانی میزائلوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔
عالمی میڈیا تو یہی بتاتا رہا کہ صرف اسرائیلی میزائل دفاعی نظام ہی ایرانی حملے کی راہ میں رکاوٹ تھا مگر درحقیقت ایرانی میزائلوں نے امریکی میزائل نظام، برطانوی میزائل نظام، اردن، عراق میں موجود میزائل ڈیفنس شیلڈز اور اسرائیل میں نصب "تھاڈ" نامی مریکی میزائل شکن نظام کو بھی چکمہ دیا اور یوں ایران نے مشرق وسطی میں خود کو اسرائیل سے بھی بڑی فوجی طاقت منوا لیا۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر حملے سے قبل 2 بڑے مقاصد بتائے جن میں سے ایک ایرانی حکومت کی تبدیلی اور دوسرا ایرانی ایٹمی پروگرام کی ہمیشہ کیلئے خاتمہ تھا مگر وہ دونوں مقاصد کے حصول میں ناکام رہے۔ نہ تو ایران کی اسلامی حکومت تبدیل ہوئی اور نہ ہی ایٹمی صلاحیت مکمل تباہ کی جا سکی۔ اسرائیلی ناکامی دیکھتے ہوئے امریکہ میدان میں اترا اور اپنے سٹریٹجک بمبار بی-2 طیارے 14 ہزار کلو گرام وزنی بنکر بسٹر جی بی یو 57 بموں کے متعدد حملے کئے مگر نتانز، فردو اور اصفہان کی ایٹمی تنصیبات کو ناقابل تلافی نقصان نہیں پہنچا۔ اس حوالے سے خود امریکی محکمہ دفاع پنٹاگان کی جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ جدید ترین امریکی بم استعمال کرنے کے باوجود ایرانی ایٹمی پروگرام صرف چند ماہ پیچھے گیا، اسے مکمل ختم نہیں کیا جا سکا۔ نیتن یاہو سوائے چند ایرانی ایٹمی سائنسدان اور جرنیلوں اور عام شہریوں کو قتل اور زخمی کرنے کے علاوہ کوئی قابل ذکر مقصد حاصل نہیں کر پائے اور مشن "رائزنگ لائن" یا "ابھرتا ہوا شیر" پوری طرح ناکام ہو گیا۔
نیتن یاہو صرف ایران تک محدود نہیں رہے گا، اس کا اگلا نشانہ پاکستان ہے۔ یہ بات اسرائیلی وزیراعظم ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہہ چکا ہے کہ ایران اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دنیا کیلئے خطرہ ہیں اور نیتن یاہو کی دنیا صرف اسرائیل اور صیہونی یا اپنے اتحادیوں تک محدود ہے۔ لہذا جس طرح وہ ایرانی ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لئے کھل کر کھیل رہا ہے اسی طرح پاکستان کو بھی جلد یا بدیر یہی صورتحال درپیش ہونی ہے۔

یہ بات تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ اسرائیل نے 2003ء میں Weapons of Mass Destruction "بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار" کا نعرہ لگا کر عراق کو امریکہ کے ہاتھوں تباہ کروایا۔ اس سے قبل یہ عراق کا ایٹمی ری ایکٹر ایک فضائی حملے میں تباہ کر چکا تھا۔ اس کے بعد لیبیا کی ایٹمی ٹیکنالوجی کو تباہی سے دوچار کیا گیا۔ 2007ء میں اسرائیل نے شام کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا۔ یوں جو اسلامی ملک بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کی جانب پیش رفت کرتا ہے اسرائیل اس ملک کو جزوی یا مکمل تباہی سے دوچار کر دیتا ہے اور اس کھیل میں امریکہ اس کا کھل کر یا خفیہ بھرپور ساتھ دیتا ہے۔ ایران کا بے شک اسرائیل ایٹمی پروگرام مکمل ختم نہیں کر سکا مگر وہ کئی ماہ پیچھے لے گیا ہے، نیتن یاہو چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ ایرانی ایٹمی پروگرام سے مکمل نجات نہ حاصل کر لے، اس کے بعد ساری توجہ پاکستان پر مرکوز ہو جائے گی۔ امریکہ نے 7 ماہ قبل پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں عائد کی تھیں جو اسرائیل کی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کیخلاف سرگرمیوں میں تعاون کی عکاس ہیں، صاف ظاہر ہے کہ منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے بس اسرائیل کو مناسب موقع کی تلاش ہے جو شائد ایران سے فراغت کے فوری بعد دستیاب ہو جائے۔
امریکہ، اسرائیل اور یورپی اتحادی ایک ایک کر کے ان تمام مسلم ممالک کو چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنی دفاعی ضروریات کے تحت ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا حل کیا ہے۔

مسلم ممالک کو درپیش اس مسئلے کا پائیدار حل ہونا چاہیے اور وہ ہے جس طرح یورپی ممالک اکٹھے ہو کر روس کے خلاف یوکرین کی مدد کر رہے ہیں اور روس کو ایک ایسی حالت میں لے گئے ہیں جہاں وہ اپنے ہی مخالف امریکی صدر ٹرمپ کی مدد کا محتاج ہو گیا ہے اور مسٹر پوٹن ٹرمپ کی تعریفیں کر رہے ہیں کہ کسی طرح یوکرین جنگ سے جان چھوٹے۔ بالکل یہی کام امریکہ کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔
اس وقت سارا یورپ یوکرین کو مدد فراہم کر رہا ہے، اسلحہ، لاجسٹکس اور اخلاقی و سفارتی مدد، اس طرح ایک چھوٹا سا ملک روس پر بھاری نہیں پڑ رہا تو ہلکا بھی نہیں ہے اور یورپی ریاستیں اسے ایسی بفر سٹیٹ )حائل ریاست( کے طور پر استعمال کر رہی ہیں جو روس کو ان پر حملے سے روکے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر ایک دفاعی اتحاد تشکیل دے جو ایران کو امریکا و اسرائیل کے خلاف بفر سٹیٹ کی طرح ایسے استعمال کریں کہ اسرائیل و امریکہ ایران میں کھپ جائیں اور پاکستان پر حملے کی نوبت ہی نہ آئے۔ پاکستان اور چین اپنی جانب بڑھتے خطرے سے اسی صورت پیچھا چھڑوا سکتے ہیں جب موثر حکمت عملی کے تحت بغیر مزید وقت ضائع کئے بغیر دفاعی اتحاد قائم کر لیا جائے، عملی قدم میں ہی پاکستان کی بقا مضمر ہے۔