ہوم << آئینۂ کربلا . نعیم اللہ باجوہ

آئینۂ کربلا . نعیم اللہ باجوہ

سانحۂ کربلا محض تاریخ کا ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا ابدی استعارہ ہے جو ہر دور میں انسان کو حق و باطل کی پہچان سکھاتا ہے۔ کربلا ایک مقام نہیں، ایک کیفیت ہے؛ ایک ایسا لمحہ جہاں وقت ٹھہر سا گیا، جہاں ہر ذرہ گواہ بن گیا اس عظیم قربانی کا، جو امام حسینؑ نے انسانیت کے بقاء، حق کی سربلندی، اور دینِ محمدیؐ کی حفاظت کے لیے دی۔

حسینؑ کوئی ایک فرد نہیں، وہ ایک صدا ہے، ایک قیامت تک گونجتی ہوئی للکار جو ہر دور کے یزید کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہے، یہ صدا "لا الٰہ الا اللہ" کی عملی تفسیر ہے۔کربلا وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنی روح کا عکس دیکھ سکتا ہے۔ یہ وہ مقامِ باطن ہے جہاں ظاہر کی کثافتیں مٹ کر صداقت کے نور میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ حسینؑ کا سجدہ، فقط ایک عبد کا سجدہ نہیں، بلکہ ایک فلسفیانہ اعلان تھا کہ جو حق کے لیے مر گیا، وہی حقیقت میں زندہ ہے۔ ان کا خیمہ شعور کا قلعہ تھا، جہاں ہر فرد ایک نظریہ تھا، ہر سجدہ ایک احتجاج، ہر آنسو ایک گواہی، اور ہر زخم ایک دلیل۔

شہادتِ حسینؑ وجدانِ حق کا وہ آفتاب ہے جو ظلمت کے سینے سے طلوع ہوا۔ کربلا کی ریت پر گرا ہر قطرۂ خوں وقت کے سینے پر ایک ایسی تحریر بن گیا جسے نہ دریا کا بہاؤ مٹا سکا، نہ تاریخ کا انکار۔ حسینؑ کی پیاس ظاہری تھی، مگر وہ باطن میں سیراب تھے۔ ان کے زخم گہرے تھے، مگر ارادے فولادی۔ وہ تنہا تھے مگر ان کا نظریہ ابدی قافلہ بن چکا تھا۔کربلا ایک سوال بن کر ہر دور کے یزید کے سامنے کھڑی ہے: "کیا تم سچ پر مر سکتے ہو؟" یہ جنگ عقل و وحی کی نہیں، اقتدار و اخلاص کی تھی۔ یزید کے پاس تخت تھا، حسینؑ کے پاس تقویٰ۔

یزید کے پاس لشکر تھا، حسینؑ کے پاس نظریہ۔ یزید کے نام کو تاریخ نے اپنے زہریلے کنویں میں دفن کر دیا، مگر حسینؑ کا نام ہر حریت پسند کی سانس میں اتر گیا۔یہی وہ مکتب ہے جہاں حرؓ جیسے گمراہ راہِ ہدایت پر آ جاتے ہیں، جہاں اذانیں نیزوں پر بلند ہوتی ہیں، اور معانی جسم سے نکل کر مفہوم بن جاتے ہیں۔ حسینؑ نے وقت کو ایک نیا معنی دیا — کہ زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ حق کے لیے جینے اور حق پر مرنے کا نام ہے۔ کربلا کی خاک، وقت کی آنکھ میں چبھتا ہوا سچ ہے، جو ہر مظلوم کے دل کی دھڑکن ہے، ہر سجدہ گزار کے ماتھے کا نور ہے، ہر آزادی کے متوالے کے ضمیر کا چراغ ہے۔

حسینؑ کا سر نیزے پر بلند ہو کر دلوں میں جھک گیا، اور یوں ثابت ہو گیا کہ شہادت فنا نہیں، بقا ہے۔ انہوں نے جو بیج کربلا کی خاک میں بویا، وہ آج بھی وفا کی فصلوں میں لہلہا رہا ہے، اور قیامت تک لہلاتا رہے گا۔