پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ، یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس، جہاں انصاف کے اعلیٰ معیار قائم ہونے چاہئیں، وہاں عدالتوں کی ظاہری ہیئت ایک غیر محسوس مگر گہری نفسیاتی تقسیم پیدا کر دیتی ہے۔ ان عدالتوں میں ججز کے لیے جو تخت نما بلند سٹیج بنایا گیا ہے، وہ صرف فرنیچر کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ ایک ایسی علامت بن چکا ہے جو بصری طور پر فاصلہ اور نفسیاتی طور پر برتری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ججز کو ایک ایسی بالادست کرسی پر بٹھانا جو باقی تمام افراد سے کہیں بلند ہو، ایک لاشعوری برتری کے تاثر کو جنم دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سائلین، جو پہلے ہی نظامِ عدل کی پیچیدگیوں اور تاخیری حربوں سے پریشان ہوتے ہیں، اس تختِ انصاف کو دیکھ کر مزید مرعوب اور کمزور محسوس کرتے ہیں۔ وکلاء، جو دلائل کے سپاہی ہوتے ہیں، وہ بھی اس غیر فطری ساخت سے دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کا عدالتی ڈھانچہ برطانیہ کے کامن لاء سسٹم سے ماخوذ ہے، مگر افسوس کہ ہم نے اس نظام کی صرف قانونی بنیادیں تو لے لیں، مگر اس کے ساتھ جڑے انسانی وقار، مساوات اور ہم آہنگی کے اصولوں کو کہیں نظرانداز کر دیا۔ برطانوی عدالتوں میں ججز، وکلاء اور سائلین کے بیٹھنے کے انتظامات میں حیران کن سادگی اور برابری کا مظہر نظر آتا ہے۔ وہاں جج کسی تخت پر نہیں بیٹھتا بلکہ ایک ایسے مقام پر ہوتا ہے جو قانونی اتھارٹی کا عکاس ضرور ہوتا ہے، مگر انسانوں کے درمیان فاصلہ نہیں بڑھاتا۔
عدالتی وقار کا تعلق کرسی کی بلندی سے نہیں بلکہ فیصلے کی شفافیت، رویے کی متانت اور قانون کی غیرجانبداری سے ہوتا ہے۔ اگر عدلیہ واقعی مساوات، وقار اور انصاف کی علمبردار بننا چاہتی ہے تو اسے محض فیصلہ دینے سے پہلے اپنے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر اصلاح لانی ہوگی۔
کیا وقت آ نہیں گیا کہ پاکستان کی عدالتیں بھی اپنی عمارتوں، کمروں اور نشستوں کی ترتیب میں وہ تبدیلی لائیں جو انسان کو انسان سمجھنے کے اصول پر مبنی ہو؟ تاکہ انصاف صرف دکھائی نہ دے، بلکہ محسوس بھی ہو ، ایک برابری کے ماحول میں، جہاں تخت نہیں، حق بلند ہو۔
تبصرہ لکھیے