بسا اوقات حقیقت کی پیچیدگی ہمارے الفاظ کی گرفت سے باہر ہو جاتی ہے، اور ہم کسی بھی غیر متوقع صورتحال کو ہاں یا ناں ۔۔زیرو ۔۔ون کی بائینری سوئچ میں دیکھنے تک محدود ہو جاتے ہیں۔ حالیہ ایران-اسرائیل-امریکہ کشیدگی میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ اسے “فکسڈ” یا “ڈرامہ” قرار دے کر آگے بڑھ جاتے اور کچھ اسے فائنل معرکہ مطلب ملحۃالکبری سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں کے درمیان بہت سے سوالات ہیں، اور اگر ان کے جوابات ان مخصوص اصطلاحات کی نذر ہو جائیں تو اس سے نہ صرف سچائی دھندلی ہو جاتی ہے بلکہ ہماری اجتماعی بصیرت بھی متاثر ہوتی ہے۔
ایسے میں پہلا بنیادی سوال یہ بنتا ہے کہ آخر اس تصادم کے اہداف کیا تھے — اور کیا وہ پورے ہوئے؟
اسرائیل کے ممکنہ اہداف میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو مکمل طور پر مفلوج کرنا، ایرانی عسکری قیادت کو خوفزدہ کرنا، اور خطے میں اپنی ڈیٹرینس کو بحال رکھنا شامل تھا۔ لیکن جو کچھ سامنے آیا، وہ یہ تھا کہ ایرانی تنصیبات پر حملے جزوی رہے، اسرائیل کو امریکہ کی فوجی سپورٹ مانگنی پڑی، اور خطے میں اس کی بالادستی کے تاثر کو دھچکا لگا۔
ایران کے اہداف میں اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے تاثر کو توڑنا، امریکہ اور اسرائیل کو براہِ راست چیلنج کر کے اپنی سٹریٹیجک حیثیت منوانا، اور اپنے نیوکلیئر پروگرام کو محفوظ رکھنا شامل تھا۔ یہ سب کچھ کسی حد تک حاصل بھی ہوا ۔ اسرائیل پر حملے ہوئے، امریکہ کو میزائلوں کا سامنا کرنا پڑا، اور ایران کے ایٹمی اثاثے محفوظ رہے یا کم از کم محفوظ بتائے گئے۔
امریکہ کا مقصد خطے میں اپنی برتری کو مستحکم کرنا، ایران کو پیچھے دھکیلنا، اور اسرائیل کی پوزیشن کو مضبوط کرنا تھا۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی، آئینی چیلنج، اور اقوامِ متحدہ کی بے بسی سب کچھ سامنے آ گیا۔
اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ایران نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر توڑ دیا ہے؟ ایران کا براہِ راست اسرائیلی سرزمین کو نشانہ بنانا بخود ایک اہم واقعہ ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس سسٹم اور امریکی تھنک ٹینکس کے تمام خدشات کے باوجود یہ میزائل گزرے، کچھ پہنچے، کچھ گرائے گئے ۔ بہت سوں نے دشمن کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنجایا۔ یوں ایران نے یہ پیغام دیا کہ اب جنگ یکطرفہ نہیں رہے گی۔ اس سے ایران نے نہ صرف اپنی عسکری صلاحیت ظاہر کی بلکہ نفسیاتی سطح پر اسرائیلی برتری کے بیانیے کو چیلنج کردیا۔
اس کے بعد اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسرائیل اس جنگ کو اکیلے جاری رکھنے کی پوزیشن میں تھا؟ اس کا جواب بھی پیچیدہ ہے۔ اسرائیل نے ایران کے خلاف متعدد کارروائیاں کیں، لیکن جب ایران نے براہ راست ردعمل دیا، تو اسرائیل نے امریکی جنگی شمولیت کی کوشش شروع کردی کیونکہ وہ تنہا ایسی جنگ کو طویل مدت تک جاری نہیں رکھ سکتا — نہ عسکری لحاظ سے، نہ سیاسی۔اس کا میزائل ڈیفینس سسٹم تیزی سے اپنے خاتمے کی طرف جارہا تھا ۔ اس سے یہبا آسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا انحصار بیرونی ضمانتوں پر بڑھ گیا جبکہ ایران تنہا اس دوایتمی طاقتوں کا سامنا کررہاتھا .
لہذا یہ بھی سوال اہم ہے کہ کیا ایران نے امریکہ اور اسرائیل دونوں کا سامنا کر کے ایک نئی سٹریٹیجک برابری حاصل کر لی؟ کچھ مبصرین کے نزدیک، ایران نے تنہا دو ایٹمی طاقتوں کو چیلنج کیا، باوجود اس کے کہ وہ شدید پابندیوں میں گھرا ہوا تھا۔ یہ قوت کا اظہار نہیں تو کیا ہے؟ بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایران نے تنہائی میں ایک نیا ڈیٹرینس قائم کیا ہے، جو عسکری سے زیادہ سیاسی و نفسیاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ عرب ریاستوں کے رویوں میں تبدیلی، ترکی و قطر کی حمایت، اور اقوامِ متحدہ کی عملی ناکامی اس بدلتی فضا کی علامات ہیں۔
اگلا سوال یہ ہے کیا ایران کا ایٹمی پروگرام واقعی محفوظ رہا؟اسے ختم کرنا دشمن کا بنادی ہدف تھا ۔ اگر امریکہ اور اسرائیل نے اسے مکمل تباہ کر دیا ہوتا، تو غالباً تابکاری، سیٹلائٹ ڈیٹا اور انسپیکشن رپورٹس کچھ اور ظاہر کرتیں۔ ایرانی قیادت کے دعوے کہ یورینیم پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دی گئی تھی — ظاہر کرتے ہیں کہ ایران نے اپنے دفاع میں پیشگی حکمت عملی اپنائی تھی۔ اگر ایسا ہے تو یہ نہ صرف منصوبہ بندی کی علامت ہے بلکہ ایک خاموش ڈیٹرینس بھی۔
سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہم ہر واقعے کو “یا فکسڈ” یا “اصل” کی بائنری میں کیوں بانٹتے ہیں؟ کیا کوئی جنگ صرف تب ہی اصل ہوتی ہے جب شہر راکھ کا ڈھیر بن جائیں؟ کیا ڈیٹرینس، محدود حملے، اور علامتی ردعمل جنگ کا حصہ نہیں؟ کیا ایک ایسے تنازعے کو جس میں دونوں فریق بوجوہ “محدود ردعمل” کی پالیسی پر گامزن ہوں اسے صرف اس لیے جعلی کہہ دینا درست ہے کہ ہم نے بڑی تباہی نہیں دیکھی؟
شاید اصل مسئلہ ہماری تجزیاتی زبان کا ہے — جہاں حقیقت کے مکمل خاکے کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ کا دامن تنگ پڑ جاتا ہے۔ ہم جلدی سے "فکسڈ"، "ڈرامہ" یا "جعلی" جیسے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں، کیونکہ درمیانی حقیقتوں کو بیان کرنے کی عادت یا مہارت ہم نے کم ہی اپنائی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر جنگیں مکمل تباہی کے بجائے ایک سوچے سمجھے اصول پر چلتی ہیں، جسے 'Managed Escalation' کہا جا سکتا ہے — یعنی فریقین جانتے ہیں کہ کہاں رکنا ہے، کتنا بڑھنا ہے، اور کس حد تک پیغام دینا ہے تاکہ جنگ قابو میں رہے، مگر مقصد بھی حاصل ہو جائے۔
یہ جنگ چاہے محدود رہی ہو، اس کے اثرات واضح ہیں: خطے کی جغرافیائی کشش تبدیل ہو رہی ہے، ایران کا امیج بدل رہا ہے، اسرائیل کو محدود کیا جا رہا ہے، اور امریکہ کو قانونی و اخلاقی تنقید کا سامنا ہے۔ امریکہ نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی، اپنے آئین کو چیلنج کیا، اور اس عمل نے نہ صرف اقوامِ متحدہ کو غیر مؤثر بنا دیا بلکہ مغرب کے اخلاقی بیانیے کو بھی مشکوک کر دیا۔
لہٰذا ہمیں تجزیے میں بلیک اینڈ وائٹ سے نکل کر حقائق کی پرتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں دانش سانس لیتی ہے۔
تبصرہ لکھیے