کیتھرین نے ایک شیعہ یمنی مسلمان سے شادی کی، جس کے ذریعے اس نے نہ صرف مسلم شناخت اختیار کی بلکہ اسلام کے حساس حلقوں میں اپنی قبولیت بھی بنائی۔ شادی کے بعد اس نے ایران، عراق، یمن اور لبنان جیسے خطوں میں "اسلامی اتحاد" کا بیانیہ اپنایا، یہاں تک کہ اسے حزب اللہ اور ایران کے تھنک ٹینکس میں لیکچر دینے کے مواقع بھی ملے۔ بعد ازاں طلاق کے بعد اس نے اپنی اصل شناخت اور مشن کا انکشاف کیا — جس نے ثابت کر دیا کہ صرف جسم ہی نہیں، شناخت، نظریہ، ازدواج اور مذہب تک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دنیا میں جنگیں صرف ہتھیاروں، میزائلوں اور ٹیکنالوجی سے نہیں جیتی جاتیں۔ کئی بار نظریات، جسم اور جذبات کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب مذہب کو بھی اسی کھیل کا مہرہ بنا لیا جائے تو معاملہ صرف جنگی حکمت عملی نہیں رہتا، بلکہ ایک ایسا اخلاقی زوال جنم لیتا ہے جس کی گونج صدیوں تک سنائی دیتی ہے۔
اکتوبر 2010 کو ایک یہودی عالم Rabbi Ari Shvat نے ایسا فتویٰ دیا جس نے دنیا بھر میں اخلاقیات اور مذہبی سوچ رکھنے والوں کو چونکا کر رکھ دیا۔ اس نے کہا "اگر کوئی یہودن قومی کاز کے لئے کسی دشمن ملک کے اہم ترین لوگوں کو اپنے ساتھ جنسی تعلق میں ملوث کرلے تو یہ نہ صرف ثواب کا کام ہے بلکہ ایسی عورت جنت کے اعلیٰ درجات کی حقدار ہوگی۔" اری شوات نے مزید کہا کہ خداوند خود جنت میں اس لڑکی کا استقبال کرے گا۔
گو کہ یہ فتویٰ پندرہ سال پہلے کا ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ قوم صدیوں سے اس فلسفے پر عمل پیرا ہے۔ بس اس وقت دنیا کو لگا کہ یہ یاددہانی فتویٰ خفیہ ایجنسی کے ایماء پر جاری ہوا ہے۔ چنانچہ ان کی کئی خوبرو دوشیزائیں ایسے لذت بھرے مذہبی مشن پر نکل کھڑی ہوئیں، مقصد جسمانی تعلقات کی آڑ میں مطلوبہ انفارمیشن پیچھے بھیجنا تھا۔
اس فتویٰ سے بہت پہلے 1966 میں ایک ایسی جاسوسہ نے ایک عراقی پائلٹ کو اپنے جال میں جکڑ کر اسے خنجر ریاست بھاگنے پر آمادہ کر لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ سوویت یونین کا قیمتی جدید لڑاکا طیارہ MIG بھی لے کر تل ابیب پہنچ گیا۔ خفیہ ایجنسی نے اس کامیابی کا جشن منایا۔
1986 میں ایک ایسی ہی مشنری خاتون نے اپنے ملک کے ایک غدار ٹیکنیشن Mordechai Vanunu کو پُرلذت راتوں کے سپنے دِکھا کر انگلینڈ سے اٹلی بلایا۔ ونونو پر الزام تھا کہ اس نے ملک کے ایٹمی راز دشمن کو بیچے ہیں۔ وہ محبت کی دلدل میں ایسا دھنسا کہ حسینہ کے دیس پہنچ گیا۔ دنیا حیران تھی کہ ایک خاتون نے کیسے جذبات اور جنس کو استعمال کرتے ہوئے انتہائی رازداری سے آپریشن مکمل کر لیا۔ عصمت زدہ ایجنٹ قومی ہیرو قرار پائی۔
اس مذہب کی تاریخ میں ملکہ استر Esther کا واقعہ ملتا ہے، جو پانچ سو قبل مسیح میں فارس کے بادشاہ Ahasuerus کی ملکہ بنی، صرف اس لیے کہ وہ اپنی قوم کو نسل کشی سے بچا سکے۔ اسی طرح Yael نامی ایک خاتون نے دشمن کے سپہ سالار سیسرا Sisra کو ٹھکانے لگانے کے لیے اس سے جسمانی تعلق قائم کیا اور جب وہ گہری نیند میں چلا گیا تو اس کا سر قلم کر دیا۔
ربی شوات کے فتوے میں شادی شدہ ایجنٹس کے لیے بھی گنجائش رکھی گئی۔ اگر کسی شادی شدہ عورت کو یہ کام سونپا جائے تو اس کا شوہر وقتی طور پر طلاق دے سکتا ہے، تاکہ وہ قومی مفاد میں یہ عمل انجام دے اور بعد ازاں دوبارہ نکاح کر کے اسے واپس لے لے۔
یہ تجویز سننے میں جتنی عجیب لگتی ہے، اتنی ہی سنگین اخلاقی پیچیدگیوں کی حامل بھی ہے۔ یہ صرف اسرائیل تک محدود نہیں رہا بلکہ بھارت بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہا۔ انڈین خفیہ ایجنسی RAW بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے "ہنی ٹریپ" جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہے۔
ایسے خفیہ اور نظریاتی کھیلوں کی ایک تازہ اور خطرناک مثال Catherine Perez-Shakdam ہے — ایک یہودی نژاد فرانسیسی خاتون جو برسوں تک خود کو شیعہ اسکالر، ایران کی حامی اور اسلامی انقلاب کی ترجمان ظاہر کرتی رہیں۔ وہ نہ صرف ایران کے مذہبی، فکری اور سیاسی حلقوں میں گہری رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں، بلکہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا انٹرویو کرنے والی واحد مغربی خاتون بھی بنیں۔ بعد ازاں انہوں نے خود اعتراف کیا کہ یہ سب کچھ ایک خفیہ مشن کا حصہ تھا، جس کا مقصد ایران کے اندر سے معلومات حاصل کرنا اور نظریاتی سطح پر دراندازی کرنا تھا۔
کیتھرین نے اپنی کتاب “The Hijab Diaries: The Veil Unveiled” میں اپنے اسلام قبول کرنے، نقاب پہننے اور مشرق وسطیٰ میں گزارے گئے وقت کا بیان دیا، لیکن بعد میں انکشاف کیا کہ یہ سب کچھ محض ایک چال تھی۔ ایک اور کتاب "A Happy Apostate" میں اس نے نہ صرف اپنے مذہب کی تبدیلی کی تفصیل دی بلکہ اسلامی معاشروں پر تنقیدی نظریہ بھی پیش کیا۔
ایسے کئی کیسز منظر عام پر آ چکے ہیں جن میں انڈیا اور دیگر ریاستیں ہنی ٹریپ کو ایک خاموش مگر مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی آئی ہیں۔ جسم، فریب اور جذبات کا یہ امتزاج بظاہر خفیہ جنگ کا حصہ ہے، لیکن درحقیقت یہ معاشرتی اور اخلاقی زوال کی ایک بھیانک شکل ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا واقعی قوموں کی بقا کے لیے عورت کو محض ایک جسم بنا کر قربان کر دینا جائز ہے؟ یا پھر یہ وہی فریب ہے جسے طاقتور قوتیں مذہب، قوم پرستی اور سلامتی کے نام پر نسلوں کو بیچتی آئی ہیں؟ اگرچہ تاریخ خاموش ہے، مگر ہر بدن جو "قومی خدمت" کے نام پر نیلام ہوا، وہ گواہی دے رہا ہے کہ جنگ صرف میدان میں نہیں، ضمیر میں بھی لڑی جاتی ہے — اور اکثر ہم وہیں ہار جاتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے