ہوم << صحرا کا انگور، پیہلوں . ڈاکٹر ماریہ نورین

صحرا کا انگور، پیہلوں . ڈاکٹر ماریہ نورین

پیہلوں کا درخت ایک صحرائی درخت ہے۔ یہ روہی ،تھل دامان اور تھر میں پایا جاتا ہے۔اسے کہیں جال کہتے ہیں، کہیں ونڑ بھی کہتے ہیں ،جالھ بھی کہا جاتا ہے، کہیں جھاڑی منڈھ گھاڑی بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے toothbrush tree کہا جاتا ہے ۔

یہ زمین میں بہت گہرائی میں جا کر پانی چوستا ہے اور اپنے ارد گرد کی زمین میں نمی برقرار رکھتا ہے اس لیے اس کے آس پاس کئی طرح کے دیگر بوٹے اگتے پلتے ہیں، جیسے لانڑاں، کھمبیاں، پھوگ، پھِپھُّوں۔ پھِپھوں اس کے چوڑے تنے میں اگتی ہیں اور ان سے چٹنی بنائی جاتی تھی۔ ایک بار کسی کے گھر میں نے بھی کھائی تھی۔ یہ دنیا کے قدیم ترین درختو ں میں سے ایک ہے ۔ اس کی چھوٹی ٹہنیوں کی لکڑی کوڑکی یعنی جلدی ٹوٹنے والی ہوتی ہے (مجھ سے زیادہ کسے پتا ہوگا کہ کئی بار گر کر چوٹیں کھائی ہیں)، جبکہ تنے کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے۔

اس کی لکڑی کو کیڑا اور دیمک نہیں لگتی ۔لکڑی نہ صرف جلانے کے کام آتی ہے بلکہ تھل میں بھورے (زیر زمین بنائے گئے رہائشی چھپر نما کمرے ) اور روہی میں گوپے بنانے میں کام آتی ہے۔ چھتوں پر اس کے تنے سے بنے شہتیر آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کم پانی میں اور بہت لمبے عرصے تک زندہ رہنے والا درخت ہے ۔ اس کا پھیلاؤ دار درخت پورے ایک گھر کا کام کرتا ہے ، یہ زمانوں سے وسیبیوں کے لیے دھوپ اور بارش سے پناہ کا ذریعہ رہا ہے ۔ آج بھی چنے کی فصل کاٹنے والے لائیار اسے اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں۔

اس کی ٹہنیوں سے مسواک بنتی ہے ، پتے اونٹ اور بکریوں کی پسندیدہ خوراک ہیں ۔جبکہ پھل انسان اور پرندے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔اس پر سال میں ایک بار پھل لگتا ہے۔اس پھل کا نام وسیب کے مختلف علاقوں میں مختلف تلفظ سے بولا جاتا ہے، جیسے پیلہوں، پیہلوں، پیل، پیلوں، پیلو. ہم اسے پیہلوں کہتے ہیں۔ پیہلوں کو صحرا کا انگور بھی کہا جاتا ہے۔ پیہلوں ایک ننھا منا بے حد نازک پھل ہے۔

یہ پھل ذرا سی ٹھیس سے خراب ہو جاتا ہے اس لیے اسے چننے کے لیے مٹی کی لوٹی ، یا پڑوپی یا کجھور کے پتوں سے بنی ٹوکری استعمال کی جاتی تھی۔ دو ہزار اکیس میں میں نے کچھ لوگوں کو شیشے کی بوتلوں میں پیہلوں اکٹھے کرتے دیکھا ۔ یہ بھی اچھا آئیڈیا ہے۔ پیہلوں جیٹھ کے مہینے میں پکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہماری طرف کہا جاتا ہے "اَدھ جیٹھ تے ٻال جالھیں ہیٹھ" (جیٹھ کا مہینہ نصف پر پہنچتا ہے تو بچے جال کے درختوں کے نیچے پہنچ جاتے ہیں)، ہاڑ کے مہینے میں آنے والی تیز آندھیاں اس پھل کو ختم کر دیتی ہیں۔

جال کو صوفی منش، فقیر درخت سمجھا جاتا ہے ۔ جو سب کے لیے فایدہ مند اور بے ضرر ہے کیونکہ اس سے فایدہ ہی فایدہ ملتا ہے تکلیف نہیں (کانٹے نہیں ہوتے )۔ شاید تبھی کئی اولیائے اللہ نے جال کے درختوں کواپنا ٹھکانہ بنایا۔جیسے سادھو پیپل کے پیڑ تلے دھونی رمایا کرتے تھے، روایات بتاتی ہیں کہ وسیب کے صوفیا و اولیاء جال کے درختوں کے نیچے مراقبہ و اعتکاف کیا کرتے تھے۔ قبرستانوں ، درباروں اور مزاروں پر یہ درخت ضرور ہوتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ زمینوں کی آباد کاری کے بعد سے یہ انہی جگہوں پر سلامت رہ گیا ہے۔

اس درخت سے کئی قسم کی توہمات بھی جڑی ہیں۔ اکثر لوگوں کے خیال میں جال کے درختوں پر جن رہتے ہیں اس لیے شام کو ان کے نزدیک جانا خطرناک ہوتا ہے۔ کئی مزاروں پر لگے جال کے درختوں پر منت کے دھاگے اور دھجیاں باندھی جاتی ہیں۔ چنن پیر ان میں سے ایک ہے۔ ہماری طرف پیر جالھیاں آلا معروف ہے وہاں کے جال کے درخت بھی اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس درخت کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس کے نام پر چوبارہ میں جال منوتی میلہ لگا کرتا تھا، اج کل کا پتہ نہیں کہ لگتا ہے یا نہیں۔

اس کا رنگ برنگا میٹھا، پھیکا اور ترش پھل کھانے میں بہت مزیدار ہوتا ہے پر غلط طریقے سے کھانے سے زبان چھل جاتی ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک کر کے پیہل نہ کھائی جائے، بلکہ پہلے ہتھیلی پر کافی ساری اکٹھی کی جائیں اور پھر ایک ہی بار "پھَکا مار" کے کھا لی جائیں۔مقامی لوگوں کے خیال میں اس کا پھل سال میں ایک بار آتا ہے اس لیے کھانا خوش بختی کی علامت ہے اور جو کھانے سے محروم رہ جائے وہ گویا خوش بختی سے محروم رہا۔

یہ بابا غلام فرید کی کافیوں کا حصہ تو ہے ہی ساتھ ہی شادی بیاہ کے گیتوں میں، لوک گیتوں میں، محاوروں میں اور سرائیکی شاعری میں کثرت سے اس کا ذکر ملتا ہے۔ بابا غلام فرید کا کلام پیلوں پکیاں جسے ثریا ملتانیکر نے گایا بے حد مشہور ہوا۔ اس کے علاوہ بابا یہ بھی فرما گئے کہ: آیاں پیلوں چنن دے سانگے۔۔۔۔۔۔۔۔اوڑک تھیاں فریدن وانگے۔

ہمارے ہاں اس سے متعلق کئی محاورے رائج ہیں جیسے پیہل پیہل کر تاں پڑوپی بھریدی ہے (ایک ایک پیل اکٹھی کی جائے تبھی پڑوپی بھرتی ہے۔۔۔ جیسے قطرے سے دریا اور ذرے سے صحرا)۔ پڑوپی ایک چھوٹا برتن ہوا کرتا تھا، جو مقامی طور پر ناپ تول کے پیمانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔ اب بہت حد تک متروک ہوچکا ہے۔
شادیوں پہ عورتیں ایک گیت گاتی ہیں:

پکیاں پیہلوں وے ساوے پترے لُک گئے نیں
توں نظریچوں وے سارے ڋکھڑے مک گئے نیں
ترجمہ: پیہلوں پک گئیں تو ان میں سبز پتے چھپ گئے
جب تم مجھے نظر آئے تو میرے سارے دکھ ختم ہوگئے

سیف اللہ آصف نے اپنی ایک نظم میں جال کو بیری کا رشتہ دار قرار دیا :
پیلہوں آیاں جالیں وی بیریں دیاں ملیریں ہن
ترجمہ : جال کے درخت جن پر پیہلوں لگی ہوئی ہیں بیریوں کی ماموں زاد ہیں۔

ایک اور شاعر کہتا ہے :

ھُݨ پیلہوں ڄالھ تے پک گئیاں
اُتوں اَمب تے پِنڈوں ٹھک تھئیاں
ڳئے پک ھِن ول ھنڊواݨے آ
کر حیلہ، کہیں بہانے آ

ترجمہ: جال کے درختوں پہ پیہلوں پک گئی ہیں، آم اور کھجوریں بھی پہنچ گئی ہیں، تربوز بھی پک چکے ہیں، تم آجاؤ، کوشش کرو ،کسی بہانے سے آ جاؤ ۔

بزرگوں سے سنا ہے کہ کسی زمانے میں پیہلوں چننے جانا محبوب سے ملنے کا بہانہ ہوا کرتا تھا ، اب تو خیر وہ زمانے رہے نہیں۔ پھر ایک اور شاعر کہتے ہیں :

جال دے جلہوٹیں اتے پیلہوں دی بہار ہے
ڈیلھے آلا پھل ساڈے وسوں دا انار ہے
لالیاں ساڈیاں سئینڑیں اتے گیرا ساڈا میت اے
دل نہ تروڑیا کرو دل تاں مسیت اے

ترجمہ: جال کے چھوٹے درخت پر پیہلوں کی بہار آئی ہوئی ہے، ڈیلھے کا پھل ہماری بستی کا انار ہے، لالی اور گیرے جیسے چرند پرند ہمارے مالک اور دوست ہیں، دل نہ توڑا کرو یہ تو مسجد یعنی خدا کا گھر ہوتا ہے.

شاعری سے ہٹ کے مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ، کافی سال پہلےکی بات ہے شاید دو ہزار پانچ کی ، گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ہم محلے بھر کی بچیوں کا ٹولہ بنا کر پیہلوں چننے گئے۔ جس جھنڈ میں گئے وہاں ایک موٹو ٹھگنا سا بچہ پہلے سے موجود تھا۔ ہم لوگ جس درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتے وہ پہنچ جاتا کہ یہ تو میرا ہے اس سے نہیں کھانے دوں گا۔ ہم دوسرے درخت کی طرف جاتے وہ وہاں پہنچ جاتا ۔ ہم تو خیر چھوٹے تھے پر وہ ننھا بدمعاش بڑی لڑکیوں کو بھی خاطر میں نہیں لارہا تھا ۔ ہماری ایک ماموں زاد اس وقت درخت پہ چڑھ چکی تھی یہ ننھا بدمعاش نیچے کھڑا کہہ رہا تھا نیچے اترو ورنہ ماروں گا ۔

پہلے تو سب نے سمجھانے کی کوشش کی جب وہ باز نہ آیا تو میری ماموں زاد نے وہیں درخت کی چوٹی سے ٹارزن کی طرح چھلانگ لگائی اور سیدھی ننھے بدمعاش پر آ گری ۔ اس کے بعد بس اللہ دے اور بندہ لے ۔ نِکی کر کے مَلوشی (پٹائی) کرنے کے بعد جب اس کی ساری بدمعاشی ناک کے راستے نکلی تب چھوڑا۔ پھٹی قمیض اور ریت میں لتھڑے ناک منہ کے ساتھ وہ ایسا بھاگا کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔