جماعت اسلامی کے پیغام کی اشاعت میں بہت بڑا حصہ اس کے مخلص، بے لوث، کم گو اور ایثار پیشہ کارکنان کا رہا ہے۔ یہ لوگ جماعتی اور دیگر لوگوں کو کتب و رسائل وغیرہ دیا کرتے تھے۔ کبھی پڑھوا کر یہ چیزیں واپس لے لیتے، کبھی تحفتاً دے دیتے اور کبھی خریدنے کا شوق دلاتے۔ کوئی کم استطاعت والا ہوتا تو اس کے لیے اپنی طرف سے قسطوں پر خریدنے کا بندوبست کرتے۔ صلے یا تمنائے ستائش کے بدون اعتراف جرم ہے کہ بڑوں کی تربیت کے زیر اثر میں بھی یہ کام کرتا رہا الحمدللہ۔ ایسے ہی ایک سودائی، بروایت استاد مکرم پروفیسر عطاء اللہ چوہدری، پنڈی میں ڈاکٹر عثمانی ہوا کرتے تھے۔ 60 کی دہائی میں وہ سید مودودی رحمہ اللہ کا ماہنامہ ترجمان القران گھر گھر جا کر درجنوں لوگوں کو دیا کرتے تھے۔
پروفیسر ظفر حجازی مرحوم کو اس کی سن گن ملی تو انہوں نے ڈاکٹر عثمانی کا تعاقب کر کے ان افراد کی فہرست تیار کر لی جنہیں ڈاکٹر عثمانی ترجمان القرآن دیتے تھے۔ اردو ادب اور دین سے لگاؤ اور اپنی فطری افتاد طبع کے باعث پروفیسر حجازی مرحوم، ابوالکلام آزاد کے مداح تھے۔ اس سوچ کا بہاؤ بالعموم جمعیت علمائے اسلام کی طرف ہوا کرتا ہے۔ ڈاکٹر عثمانی کا تعاقب کر کے مرحوم نے جن متاثرین جماعت اسلامی کا کھوج لگایا تھا، انہیں آپ نے مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم کا ماہنامہ ترجمان الاسلام پہنچانا شروع کر دیا۔ اس داعیانہ مقابلے کا پھیلاؤ سالوں پر رہا
پروفیسر عطا اللہ چوہدری سے گفتگو شروع کرتے ہی میں نے صراحتاً ان سے درخواست کر دی کہ حجازی صاحب مرحوم کی قلب ماہیت کا میں خود بھی مضبوط گواہ ہوں۔ اس لیے آپ کا واقعاتی بیان انکسار سے کلیتاً خالی ہونا چاہیے۔ پروفیسر عطا اللہ چوہدری صاحب پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ چنانچہ بقیہ گفتگو میری اپنی ذمہ داری پر ہے۔ کرنا اللہ کا یہ ہوا کہ حجازی صاحب مرحوم اور پروفیسر عطا اللہ دونوں میرے شہر کے انٹر کالج میں تعینات ہو گئے۔ وہاں چار نہایت اچھے مکان ایک ہی قطار میں تھے جو کالج کے پروفیسروں نے کرائے پر لے لیے۔ پروفیسر عطا اللہ، جماعت اسلامی کے ان ارکان میں سے ہیں جو صرف جاگتے میں اسلامی نظام کے خواب دیکھ کر عملی اقدام نہیں کرتے بلکہ سوتے میں بھی وہ یہی کچھ کرتے رہتے ہیں۔ مجھے ان کی شخصیت کا مختصر ترین عنوان دینے کو کہا جائے تو جواب "انسان ساز" آتا ہے. خود میری زندگی میں موصوف نہ ہوتے تو میں اکبر الہ آبادی کی دی گئی ڈبل روٹی کھا کر خوشی سے پھولا ہی رہتا اور اکبر ہی کی نصیحت پر عمل کرتا "چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا"۔
میری مزاج شناسی کو یقین ہے کہ پروفیسر عطا اللہ نے حجازی صاحب کو تب سے اپنے "ربط" میں رکھ لیا ہوگا کہ جب وہ معاندانہ تبلیغ پر تھے۔ قارئین اور جماعت اسلامی کی نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ربط جماعت اسلامی کے دیگر اسالیب دعوت میں سے ایک اہم اسلوب "ہوا کرتا تھا". افسوس، اب یہ لفظ سننے کو نہیں ملتا۔ اس کی بنیاد ایثار، قربانی، مہمان نوازی اور عفو و درگزر ہوا کرتی تھی۔ جماعت کا ہر فرد اپنے ذوق اور میلان کے اعتبار سے کسی نہ کسی کو اپنے ربط میں رکھ کر اس پر "کام" کرتا اور یوں بہت سے لوگ جماعت کے قریب ہو جاتے یا اس میں شامل ہو جاتے. میرے دونوں پروفیسر حضرات کو لسانی قربت (عربی اردو) اور دینداری کہ باعث مطالعے کا شوق تھا۔ پہلی بیوی فوت ہونے کے بعد حجازی صاحب اکیلے رہتے تھے۔ پروفیسر عطا اللہ گاؤں جاتے وقت اپنا متصل گھر کبھی ان کے حوالے کر جاتے۔ حجازی صاحب مجلسی آدمی تھے۔ ان کا دوسرا شوق حقہ تھا لیکن شطرنج کی بازی دیگر سب پر مستزاد تھی۔
پروفیسر عطا اللہ گاؤں گئے تو حجازی صاحب نے کالج کے لائبریرین حافظ صدیق سے چوہدری صاحب کے گھر شطرنج کی بازی جمائی۔ رات بھر شہ مات، شہ مات کا ورد ہوتا رہا۔ صبح چائے ناشتے کی طلب ہوئی تو پتا چلا کچھ "معززین" متصل چھت سے اتر کر گھر میں جھاڑو پھیر چکے ہیں۔ واپس آ کر پروفیسر عطا اللہ صاحب نے سنا تو وہ اپنی مشہور زمانہ زیر لب مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ مرحوم سے ملے۔ محبت سے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور نرمی سے دبا کر صرف یہی کہا: "کوئی بات نہیں حجازی صاحب, یہ کچھ زندگی کا حصہ ہے. آپ دل چھوٹا نہ کیجئے. اللہ کو یہی منظور تھا". پھر اس موضوع پر نہ تو کبھی بات ہوئی اور نہ تعلقات میں فرق آیا۔ نقصان نے تو خیر کیا پورا ہونا تھا، حجازی صاحب نے اسی لمحے حقے اور شطرنج سے مکمل توبہ تلا کر لیا۔ ضمنا یہ کہ مرحوم کا مصاحب خاص ہونے کے باعث مہروں اور بساط سمیت شطرنج میرے حصے میں آیا۔ انسان ساز پروفیسر عطا اللہ چوہدری کے اس "ربط" کی سوچ میں دراڑیں تو پہلے ہی پڑھ چکی تھیں, اس واقعے کے بعد انہوں نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتب یکسو ہو کر پڑھنا شروع کر دیں۔
عشروں نہیں چند ہی سالوں میں مرحوم جماعتی صفوں میں اتنی پیش قدمی کر چکے تھے کہ چوہدری عطا اللہ سے بھی اب وہ آگے تھے۔ قارئین اسے مقابلہ انیس و دبیر نہ سمجھیں، چوہدری صاحب جماعت کے انسان ساز کارکن ہیں اور حجازی صاحب گفتگو اور قلم و قرطاس کے شخص تھے۔ 1980 میں مرکز جماعت اسلامی منصورہ میں مولانا گوہر رحمنٰ رحمہ اللہ کے پہلے دورہ تفسیر میں پروفیسر عطا اللہ چوہدری اور میں پہنچے تو حجازی صاحب پہلے سے وہاں موجود تھے۔ پھر معلوم ہوا کہ موصوف نے وہیں منصورہ میں اپنا مکان بھی بنا لیا ہے۔ جاسوسی دنیا کے کرنل فریدی بن کر جس ترجمان القران کے عناد میں وہ مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم کا ترجمان الاسلام تقسیم کیا کرتے تھے، اب وہ اسی ترجمان القرآن کی غالبا مجلس ادارت کی کلیدی رکنیت تک جا پہنچے۔
مجھے اکثر فون کرکے خوب ستائش کرتے۔ایک دفعہ تو انہوں نے بیت اللہ کے سامنے بیٹھ کر مجھے ان الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا: "شہزاد, اللہ کے گھر میں جھولی پھیلائے تمہارے لیے دعا کر رہا ہوں". قارئین کرام، زندگی بھر اللہ کریم مجھے بن مانگے سب کچھ دیتا رہا اور میں کبھی نہ سمجھ پایا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ حجازی صاحب کہ اس فون اور علاوہ ازیں متعدد اساتذہ و احباب کے رویے نے مجھے سمجھا دیا کہ اتنی فیض رسانی بڑوں بزرگوں اور اساتذہ کی انہی دعاؤں کا اعجاز ہے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم دل کے اس ظفر حجازی مرحوم کو انبیاء اور صالحین کے قرب میں جگہ دے، آمین۔
تبصرہ لکھیے