ثناء یوسف، سترہ سالہ ٹک ٹاکر، بے دردی سے قتل کردی گئی۔ اس پر لوگوں کا ردِعمل وہی نظر آیا جس میں غلطی کی حمایت یہ کہ کر کی جاتی ہے کہ پہلے بھی تو غلطی ہی ہورہی تھی، یہ ہوگیا۔۔ ۔تو کیا ہوگیا!
لیکن ایسے واقعات جب رونما ہوتے ہیں تو مذہبی اور لبرل طبقات ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر اس بھیانک جرم کو پھیلنے سے روک نہیں سکتے۔ یہ بات دونوں ہی طبقات کو معلوم ہے کہ اس طرح کے معاملات کا کوئی ایک پہلو نہیں ہوتا کہ جو ان نتائج کا جواز بنا ہو۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔۔۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وقت بدل رہا ہے ، ساتھ ہی معاشرہ، رجحان اور نوجوان بھی۔ آج زندگی اور مسائل آج سے پچیس سال قبل کی زندگی اورمسائل سے یکسر مختلف ہیں۔ ان کو اسی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا حل تلاش کیا جائے نا کہ محض شور مچا کر، آزاد خیالی کو، مذہبی جنونیت کو، فیمنزم کو برا بھلا کہ کر چپ تان لی جائے جیسا کہ نور مقدم کیس کے بعد ہوا۔ ضرورت تو یہ ہے کہ تدارک کیا جائے، سوچا جائے کہ ایسا کیا ہو کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔
ایک بات طے ہے، اب سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کو نوجوانوں سے دور رکھنے والی باتیں نہیں کی جاسکتیں۔ اس دور میں یہ ممکن نہیں اور آنے والے وقت میں دنیا اس پر مزید انحصار کرنے لگے گی۔ یہاں بچوں کو موبائل فون نہ دینے یا سوشل میڈیا پر نہ ہونے کی صلاح دینا سراسر غیر حقیقی طرزِ فکر ہے۔ غور کرتے ہیں کہ یہ واقعہ بالخصوص اور ایسے دیگر واقعات بالعموم کن وجوہات کی بنا پر وقوع پزیر ہوتے ہیں۔اس کے تمام زاویوں کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔
پہلا زاویہ: زندگی کا گلیمر اور سوشل میڈیا انفلوینسر۔
غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ نوجوان جن کا ابھی شناختی کارڈ بھی نہیں بنا، وہ سوشل میڈیا انفلوینسر بننے کے چکر میں کیوں ہیں؟
ایک وجہ یہ ہے کہ وہ ایسی امثال دیکھ رہے ہیں جس میں لوگوں نے کم عمر میں ، کم وقت میں انفلوینسر بن کر بہت سا پیسہ کمایا ہے۔ لوگ ان کو قابلِ تقلید بھی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے سے چھوٹوں کو مثال دے کر بتارہے ہوتے ہیں کہ وہ دیکھو، ابھی تیرہ سال کی ہے اور ہزاروں ڈالر کماتی ہے سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈال ڈال کر، وڈیو بناکر۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ پیسوں کو اب نہایت گلوریفائی کیاجاتا ہے۔ پیسہ دکھانا، ہر موقع، لباس، سجاوٹ کو بڑھا چڑھا کر، ریل بنا کر سوشل میڈ یا پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ پہلے شادی ہوتی تھی، اب شیندی ہوتی ہے، ڈھولکی ہوتی ہے، برائیڈل شاور ہوتا ہے، مایوں ابٹن ہوتا ہے، اور ان سب کے الگ الگ ہال ، تھیم، ایونٹ ڈیزائنر، میک اپ، وڈیو، ہیش ٹیگ۔۔۔۔ یہی حال سالگرہ، عقیقہ، عید تہوار حتیٰ کہ اب تو جنازے کا بھی ہوگیا ہے۔ ہر موقع سیلیبریٹ ہونا چاہیے، کچھ ایکسائٹمنٹ، اور پھر اس کا دکھاوا بھی۔ اور جو بھی کم عمری میں کمارہا ہے ، وہ قابل تعریف و تقلید ہے۔ چہ جائیکہ وہ اس کے لیےکچھ بھی کرے۔
دوسرا زاویہ: کیا نوجوان اس کے لیے تیار ہے؟
محض موبائل فون استعمال کرنا آجانے سے اس کا درست استعمال نہیں آجاتا۔ یہ بات اہم ہے کہ اگرآج کے دور میں ایک دس سالہ بچہ اپنا سوشل میڈیا اکاونٹ بنا رہا ہے تو کیا وہ عقلی، جذباتی اور نفسیاتی طور پر اس کے لیے تیار ہوچکا ہے؟
ٹین ایج ، زندگی کا نہایت اہم حصہ ہے۔ اس وقت نوجوان اپنی منزل کا تعین کررہے ہوتے ہیں۔ جذبات اور احساسات کو سمجھنے، برتنے کے علاوہ سوشلائز ہو نا بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کو اپنے مستقبل کے لیے تیار ہونا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اندرایسی صفات پیدا کررہے ہوتے ہیں جو انہیں اگلے پچاس سال فائدہ (بسا اوقات نقصان) پہنچانے والی ہیں۔ لیکن اس وقت وہ ایسا لایعنی مواد دیکھ رہے ہیں یا بنا رہے ہیں جس کا دین یا دنیا، کسی بھی طرح کا فائدہ انہیں نہیں ہورہا، سوائے ویوز اور ڈالرز کی چمک کے۔
ہماری نوجوان نسل کا ایک المیہ یہ ہے کہ ان کے والدین بھی سوشل میڈیا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ خود بھی زیرِ اثر ہیں۔ لہذا اپنے بچوں کو بتانے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ کیا، کتنا اور کس وقت سوشل میڈیا ؟
تیسرا زاویہ:انفلوینسرز کے پاس مواد (کانٹینٹ) کیا ہے؟
اگر آپ کو کوئی کام کرنا آتا ہے اور آپ اسے انٹرنیٹ پر سکھارہے ہیں، تو یقیناً یہ تعمیری مواد ہے۔ یا آپ کسی موضوع پر معلومات رکھتے ہیں اور لوگوں سے بانٹتے ہیں، تو یہ بھی تعمیری کانٹینٹ ہوا۔ یا پھر مختلف جگہوں پر جاتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں یا لوگوں سے ملتے ہیں، اور اسے سوشل میڈیا پر آگاہی کی خاطر دکھاتے ہیں تو یہ بھی معلومات میں اضافے کا باعث بنا۔
لیکن صبح اُٹھ کر منھ ہاتھ دھونے سے کچن کی دیگچیاں اور گھر کے افراد کے بعد سونے تک کی روزمرہ عادتوں کی وڈیو بنانا کیسا مواد ہے؟ یا آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر کسی گانے کے بول پر لب ہلاتے ہوئے ایسی ادائیں دینا جو شاید محرم کے لیے ہی مناسب ہوں، یا نئے کپڑے پہننے پر گھوم کر، چل کر دکھانا اور مسکرانا۔۔۔ یہ سب محض لڑکیا ں ہی نہیں، لڑکے بھی کررہے ہیں۔ یہ سب وہ مواد ہے جو خاندان کے افراد کے ساتھ بانٹا جائے تو ہرگز معیوب نہ ہو، لیکن اگر یہ دنیا بھر کے لوگوں کو پیش کیا جارہا ہے تو اس سے لوگوں کے علم میں اضافہ مقصود ہے نہ فلاح۔ اس سے ایک ان جان شخص کیا حاصل کرے گا؟
ثناء دیگر نادان بچیوں کی طرح یہی کررہی تھی ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے وہ فوڈ دی لاگنگ کررہی تھی، جب کہ اس کی کسی وڈیو میں کھانے کے متعلق معلومات نظر نہیں آتی تھیں ، البتہ وہ گھر سے باہر کھانا کھانے کی وڈیوز ضرور شیئر کررہی تھی جس میں فوکس اس کے ہنسنے، بولنے اور مذاق کرنے پر ہوتا تھا۔ ایک فوڈ دی لاگ اس طرح کا بھی دیکھا
"سولو پزا۔۔ سارے سنگل لڑکے لڑکیاں جلدی جلدی آجاو۔ آپ بھی سنگل، میں بھی سنگل، کیا پتا مِنگل ہوجائے۔"
"لڑکو۔۔ تم لوگوں نے شادی کرنی ہو تو پٹھانی لڑکی سے کرنا۔ ورنہ گلگتی لڑکی سے کرنا۔"
"دیکھ رہے ہو پٹھانی لڑکی کتنی خوب صورت ہوتی ہے۔ تم نے بھی شادی کرنی ہو تو پٹھانی سے ہی کرنا۔"
اگرچہ ثناء کا یہ سب کانٹینٹ، اُس کے ساتھ ہوئے حادثے کو ہرگز جسٹیفائی نہیں کرتا، مگر یہ سب ان برائیوں، حادثوں یا سانحوں کو اپنی جانب کھینچنے میں معاون ہوتا ہے جو لاکھوں دیکھنے والوں میں سے چند بیمار ذہنوں کے دماغ میں نمو پاتے ہیں۔ یہ ان ڈائریکٹ یعنی بلا واسطہ دعوت دینے جیسا ہے ۔تفریح کرنے اور دوسروں کی تفریح کا باعث بننے میں ایک بہت باریک سی لکیر ہوتی ہے۔ لڑکیاں قیمتی ہیں، انہیں قیمتی ہی رہنا چاہیے نا کہ سب کے لیے میسر؟
چوتھا زاویہ:مرد کی انا کے بارے میں غلط العام تاثر
ہمارے ٹی وی پر ایسے ڈراموں کی بھرمار ہے جس میں ہیرو (جی ہاں ڈرامہ کا ہیرو، ولن نہیں) ہیروئن کے بار بار "نہ" کہنے کے باوجود اس کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اس کا راستہ آتے جاتے روکتا ہے، دھمکیاں بھی دیتا ہے، اغوا بھی کرلیتا ہے، زبردستی ساتھ رکھتا ہے یا شادی کرلیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اس سے "پیار" کرتا ہے۔
مسلم اور غیر مسلم، دونوں طرح کے مہذب معاشروں میں ایسی بدتہذیبی کو محبت نہیں، ہٹ دھرمی اور زیادتی کہا جاتا ہے۔ اسلام میں تو عورت کے حقوق بہت واضح ہیں اور اس کے مرضی کے بغیر اس کی شادی بھی نہیں ہوسکتی۔ مگر ڈائجسٹ رائٹروں نے سستے رومان کو بیچ کر اپنی دکا ن چمکائی ہے اور بے شمار ڈراموں فلموں میں مرد کو ایسا ہی دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنی بات منواتا ہے، مارتا ہے، زبردستی کرتا ہے کہ عورت پابند ہے کہ اُس کی بات مانے۔ یہاں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ تو معاشرے کی برائیاں بے نقاب کی جارہی ہیں اور لوگوں کی اصلاح کی جارہی ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ ان ڈراموں کے اختتام میں ہیروئن کو ہیرو سے پیار کرواکر اصلاح کا بیڑا غرق کرنے والے یہ ڈرامے ایسی رائے عامہ بنانے کا کام کررہے ہیں جس میں مرد کو خود غرض، جابر اور عورت کو اس کی بات ماننے والا اور زبردستی کی محبت پر سر تسلیمِ خم کردینے والا ہوتا چاہیے۔ اس میں مرد "نہ" سن سکتا ہے نہ مسترد ہونے کو برداشت کرسکتا ہے، جیسا کہ ثناء کے قاتل نے کیا۔ یہاں ایک با ت نہایت واضح طور پر سمجھانے کی ضرورت ہے کہ عورت کی "نہیں" ایک مکمل جواب ہے۔ اس کا مطلب رک جانا ہے، زبردستی کرنا نہیں۔
پانچواں زاویہ: معاشرے کے اس رویے کا علاج کیا ہے؟
دنیا میں بہت کچھ ہورہا ہے۔ اور وہ سب ہاتھ میں پکڑے موبائل کے ذریعے ہمارے بچوں اور نوجوانوں تک پہنچ رہا ہے۔ پہنچتا رہے گا۔ اسے روکنا شاید ممکن بھی نہیں اور ضروری بھی نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو ذہنی و نفسیاتی طور پر اتنا بالیدہ کردیا جائے کہ پھر ان کے سمجھنے، پرکھنے یا عمل کرنے میں فیصلہ کرتے ہوئے غلطی کا امکان نہ رہے۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ مغربی معاشرہ میں جو کچھ ہورہا ہے، ضروری نہیں کہ ہم بھی وہی کریں، ہمیں اپنی حدود اور آزادی کا تعین خود کرنا ہے ناکہ دوسروں کی تقلید کرکے۔ اگر لوگ اپنی تصاویر پوسٹ کرنے سے پیسے کمارہے ہیں یا ناچ ناچ کر وڈیوز بنا رہے ہیں تو اسے لاکھ آزادی اظہار کہیں، لیکن یہ دل میں برائیاں لانے کا سبب بنے گا اور ایسے اسباب سے جتنا دور رہا جائے ، اتنا ہی بہتر ہے۔
بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں کی تربیت وقت کی ضرورت ہے۔ ثناء کے معاملےمیں اس کا قاتل ٹک ٹاک سے اُس تک پہنچا لیکن ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جس میں لڑکیوں کا ٹک ٹاک اکاونٹ تھا نہ سوشل میڈیا ، پھر بھی وہ "نہ" کہنے پر، کسی کی انا پرستی یا بیمار ذہنیت کے ہاتھوں جان سے گئیں ۔
اس مسئلہ کا حل انفرادی ہے۔ اور انفرادی سطح پر کوششوں سے ہی تبدیلی آئے گی۔ گھر کی بچیوں کی ذہنی اور جذباتی مدد کریں ۔ انہیں سمجھائیں کہ کسی کام میں قابلیت کے بعد اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے پیسوں کے ساتھ عزت بھی کمائی جاتی ہے۔ کئی کم عمر ٹین ایج لڑکیاں کرافٹس، ڈیزائننگ ، کوکنگ یا تعلیم کے مواد کو انٹرنیٹ پر بانٹ رہی ہیں۔ خود کو پراڈکٹ بنانے سے یہ کہیں بہتر ہے۔یہ ان دیکھی برائیوں کو ان سے دور رکھنے میں معاون ہوگا۔
اپنے گھر کے مردوں کی مدد کریں۔ چاہے وہ آپ کے بیٹے ہوں، بھائی ہوں یا شوہر۔ ان کےنفیساتی مسائل سلجھانے کی کوشش کریں ، رویے کی اصلاح کریں، سمجھائیں۔ اور روکیں۔ اس وقت کو آنے سے روکیں جب معاملات ہاتھ سے نکل جائیں۔کسی کی زندگی کا چراغ گل ہوجائے یا آپ کا اپنا پیارا سلاخوں کے پیچھے چلا جائے۔
کوشش کریں اور ہونے سے پہلے ہی حادثہ کو روک لیں
تبصرہ لکھیے