ہوم << قربانی چہ معنی - اسد الرحمٰن

قربانی چہ معنی - اسد الرحمٰن

عید کا دن بالخصوص ہمارے لیے خوشی کا تہوار ہے، لیکن اس خوشی کے تہوار کے بارے میں جب ہم کسی سے پوچھیں کہ عید کیسی گزر رہی توعموماً یہ جواب سننےکو ملتا ہے کہ سو کر گزاری، اور جو وقت جاگ کہ گزرا بھی، اٌداس اور بورئنگ گزرا، کوئی ملنے آیا یا کسی سے ملنے گئے وہ بھی محض رسماً کہ عزیزو اقارب ناراض نہ ہو جائے۔ اگر مختصر کہا جائے تو عید کا دن ہمارے ہاں محض ایک مجبوری کہ تحت گزارہ جاتا ہے، عید کی خوشی محسوس ہی نہیں کی جاتی ، ایسی کیفیت نوجوانوں میں ذیادہ گہری محسوس ہوتی ہے،ایسا کیوں ہے؟ اس چھوٹی سی تحریر میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مقصد عید !
یہ عید کا دن مسلمانوں کی تاریخ میں عظیم الشان حیثیت رکھتا ہے، اس عید کے دن کا مقصد یہ ھیکہ ہم اپنے اندر پیدا شدہ حیوانی تقاضوں کو ذبح کریں جو ہمارے اندر بد اخلاقی (حسد ، کینہ ، بغض ، ظلم، ناانصافی ) پیدا کرتے ہیں. عید کا دن مسلمانوں کی قومی و بین الاقو امی آزادی کا دن ہے جس میں وہ حیوانیت سے نکل کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے انسانی نظریے کو قبول کرتے ہیں۔ جب ہم جانور ذبح کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنی حیوانی خواہشات حسد ، کینہ ، بغض اور عداوت اور حیوانی جذبات کو ذبح کرتے ہیں، تاکہ انکی جگہ ہماری روح کہ اندر ملکی تقاضے (اخلاق اربعہ طہارت، اخبات، سماعت، عدالت) کا حصول جو ایک اچھا انسان بننے کے لیے ضروری ہیں پیدا ہوں۔

قران حکیم میں قربانی کا تقاضا حصول تقویٰ ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط (الحج ۲۲:۳۷) "اللہ تعالیٰ کے یہاں قربان کیے ہوئے جانوروں کا نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ انکا خون ، لیکن اللہ کے حضور دلوں کا ادب اور تقویٰ پہنچتا ہے۔"
تقویٰ کا مطلب انسان میں سے برے اخلاق اور غلط اعمال کا خاتمہ اور اعلیٰ اخلاق ، عمدہ رویے اور درست اعمال و افعال پیدا ہونا ہے۔ قربانی سے انسان کی نیت درست ہوتی ہے اور بدنیتی پر مبنی منفی سوچ ، غلط رویے اور برے اعمال ختم ہوتے ہیں۔سنت ابراہیمی کہ ادا کرنے سے حب جاہ (جو نفس کہ غرور و تکبر سے پیدا ہوتا ہے) اور حب مال(سرمایہ پرستی) کا خاتمہ ہوتا ہے، نیز عید کہ اس عظیم الشان اجتماع کا مقصد مسلمان جماعت کی شان و شوکت اور دین کہ غلبے کا اظہار ہے.

سماجی رویہ!
اس اعلی مقصد کو دیکھیں اور اپنی معاشرے میں قربانی کرنے والوں کو دیکھیں، تو کھلم کھلا تضاد ملتا ہے، ہمارے ہاں قربانی محض نمود و نمائش ہے، کہ فلاں نے قربانی کی تو میں بھی کر دیتا ہوں، محض رسم کہ طور پہ قربانی ادا کی جاتی ہے، جو کہ ریاکاری، نفسانی خواہش اور لذت کے سوا کچھ نہیں ، یہ سوچ تو کبھی آئی ہی نہیں ذہنوں میں کہ قربانی سے اللہ سے تعلق اور اخلاص پیدا ہونا مطلوب ہے، اپنے اندر کی حیوانیت پر چھری پھیرنی ہے۔

ایک تاثر یہ بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ قربانی کے لیے جانور ذبح کرنے کی بجائے غریبوں میں چند روپے پیسے تقسیم کر دیں، جو کہ غلط رویہ ہے کیوں کہ اس کہ لیے اسلام میں ریاست کہ ماتحت زکوٰۃ کا مربوط نظام دیا ہوا ہے۔
اب جب نمودو نمائش کو مرکز بنا کر قربانی کی جاتی ہے تو اسکے جو نتائج معاشرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں، وہ اپنے آپ میں ایک بھیانک روپ دھارے ہوئے ہیں۔

سماجی رویے سے پیدا ہونے والے اثرات و کیفیات!
نمود نمائش اور رسم سمجھ کہ قربانی کرنے سے ظاہری طور پر ہم کہہ لیں گے کہ ہم نے قربانی کر کہ رسم پوری کر لی لیکن اس عمل سے انسانی جسم اور وجود پرجو اثرات مرتب ہونے چاہیے وہ نہیں پیدا ہوتے کیوں کہ دین اسلام کا کوئی بھی عمل رسمی نہیں ہے بلکہ ہر عمل تربیت پیدا کرتا ہے ۔ بغیر فلسفہ قربانی کو سمجھے قربانی کرنے سے اعلی اخلاق جو پیدا ہونا مطلوب ہوتے ہیں ان کی جگہ بد اخلاقی پیدا ہوتی ہے ریاکاری اور عداوت مزید شخصیت میں گڑ پکڑتی ہے۔ نمود و نمائش کی قربانی سے انسان کہ اندر جو حیوانی لذات اور خواہشات کا خاتمہ ہونا ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا اور ایسا انسان اپنا ہر عمل ظلم اور ناانصافی سے انجام دیتا ہے۔ معاشرے میں جو اثرات قربانی کے عمل سے پیدا ہونے چاہییں وہ نہیں ہوتے جس کہ نتیجے میں معاشرہ مزید اخلاقی تنزلی کا شکار ہوتا ہے۔

یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمیں عیدیں اداس اور بورئنگ لگتی ہیں ،اسکی اصل اور بنیادی وجہ مقاصد عید سے نا سمجھی ہیں، چھوٹے تھے تو عید اچھی تھی اب بڑے ہوگے تو کوئی فائدہ نہیں،یہ سب بھی لا یعنی باتیں ہیں دین اسلام کی یہ عبادت اس سے تعلق نہیں رکھتی۔ جہاں تربیت سے زیادہ رسم ادا کرنے کی فکر ہو ویاں عیدیں اداس اور انکی وجہ ایسی فضول باتیں کو ہی ٹھہرایا جاتاہے۔

ضرورت وقت!
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں قربانی کی پیچھے چھپی حکمت کو سمجھ کر اپنی نیت درست کریں، اور بلا تفریق رنگ ،نسل، مذہب تمام انسانوں کے لیے ایک ایسے عادلانہ سماج کی تشکیل کرنے میں کردار ادا کریں جس کے ذریعے اعلی اخلاق انسانوں میں پیدا ہوں، بہیمیت کمزور ہو اور روحانی ملکہ مضبوط ہو۔.
تمام دوستوں کو عیدالاضحٰی کی خوشیاں مبارک