ہوم << بیدار آنکھوں والے قائد ملت - اے زیڈ عامر

بیدار آنکھوں والے قائد ملت - اے زیڈ عامر

جنگ آزادی1857ء سے تقسیم ہند1947ء تک برصغیر کا ہزار سال کا سب سے بڑا Transformation Period تھا جب یہاں کے مظلوم عوام کو صدیوں پہ محیط بادشاہت کے بعد اغیار کی بے رحم غلامی کا سامنا تھا۔۔۔اس وقت میں قدرت کو اس خطے میں بسنے والوں پہ پیار آیا اور اس نے انسانوں کو آزادی جیسی نعمت سے سرفراز کرنے کا فیصلہ کیا۔اللہ نے کچھ دیدہ ور اور بیدار آنکھوں والے پیدا کیے جنہوں نے مجبور اور بے بس انسانوں کو غلامی سے نجات دلائی ۔ حضرت اقبال نے نوجوانوں کو خودی اور فکر فردا سے روشناس کروایا انہی نوجوانوں میں ایک ہستی نواب لیاقت علی خاں تھے جن کی بیدار آنکھوں نے اقبال کے بتائے ہوئے خودی کے فلسفے کو مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ بنایا۔

آپ بھارت کی ریاست اتر پردیش کے علاقے کرنال میں یکم اکتوبر 1895ء کو رستم علی خان کے گھر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر اور مدرسے میں حاصل کی۔علی گڑھ یونیورسٹی اور ایم اے او کالج سے پولیٹکل سائنس میں ماسٹر کیا۔پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لندن چلے گئے جہاں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایگزیٹر کالج سے لاء کی اعلیٰ ڈگری لی۔آپ اپنی تعلیم مکمل کر کے 1923ء میں واپس آئے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا پہلی عالمی جنگ بھگت رہی تھی۔اور اس جنگ کے نتائج عالمی سطح پہ مسلمانوں کے حق میں نہیں تھے۔خلافت عثمانیہ ختم ہوگئی تھی۔برصغیر میں تحریک خلافت چل رہی تھی۔

ادھیڑ عمر زیرک سیاستدان جناب محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے نظریات سے بد دل ہوکے مسلمانوں کی جدا گانہ سیاسی حیثیت کے قائل ہو چکے تھے۔دوسری طرف اقبال کے خودی کے فلسفے نے برصغیر کے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی تھی اس وقت لیاقت علی خان کو اپنی سیاسی منزل طے کرنے میں دشواری نہیں ہوئی، وہ 1923ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے ۔ 1927ء میں مسلم لیگ پارٹی ٹکٹ کی تقسیم کے مسئلے پہ دو گروپ بنے تو لیاقت علی خاں قائد اعظم کے بااعتماد ساتھی ثابت ہوئے اور چٹان کی طرح ان کیساتھ کھڑے رہے۔ 1928ء میں نہرو رپورٹ نے مسلم لیڈروں کے اس خیال کو نیا عزم بخشا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی الگ شناخت ہونی چاہیئے ۔چنانچہ مسلم لیگ نے اس رپورٹ کو مسترد کیا اور قائد اعظم نے چودہ نکات پیش کیے۔

مسلم لیگ کے بروقت ردعمل نے انگریز سامراج کا نو آبادیاتی نظام بحال رکھنے کا خواب چکنا چور کیا جس کے نتیجے میں 1930ء سے 1932ء تک ہندوستان کے سیاسی حل کے لیے گول میز کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔یہ کانفرنسیں بھی بے نتیجہ رہیں۔قائد اعظم لندن شفٹ ہو گئے ۔انہی دنوں لیاقت علی خاں کی ملاقات ایک ہونہار،سمجھدار اور عالی وقار خاتون آئرن روتھ مارگریٹ پنت سے ہوئی جو اس وقت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔مگر دونوں عظیم انسان ایک دوسرے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ آئرن روتھ نے لیاقت علی خاں سے نکاح کرنے کے لیے دین اسلام کو دل و جان سے قبول کیا اور اپنا نیا اسلامی نام گل رعنا رکھا۔
اس بابرکت نکاح نے لیاقت علی خاں کو ایک نیا عزم بخشا۔دونوں میاں بیوی لندن ہنی مون کے لیے گئے تو قائد اعظم کو واپس ہندوستان آ کر مسلمانوں کی راہنمائی کی دعوت دی اور انہیں اپنی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلایا ۔

حضرت اقبال اور لیاقت علی خاں جیسے بیدار آنکھوں والے ایک فولادی اعصاب کے مالک سیاستدان کو واپس لاکر مسلمانوں کی سیاسی جنگ نئے سرے سے شروع کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔لیاقت علی خاں قائد کے دست راست تھے تو نو مسلم گل رعنا نے فاطمہ جناح کا ہاتھ تھام لیا اور خواتین کو سیاسی شعور دینے میں پہلی صف میں کھڑی رہیں۔

1936ءکے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں سیکرٹری جنرل کے انتخاب کے لیے راجہ غضنفر فیورٹ تھے مگر قائد اعظم نے لیاقت علی خاں پہ بھروسہ کیا، انہی عام انتخابات میں مسلم لیگ نے قائد اعظم کی سربراہی میں شرکت کی۔کچھ مسلم نا عاقبت اندیشوں اور انگریز ،ہندو گٹھ جوڑ نے کانگریس کو اکثریتی جماعت کے طور پہ حکومت کا موقعہ دیا اس جانبدار اور متعصب حکومت نے مسلم رہنماؤں اور عام آدمی کی آنکھیں کھول دیں اور اس ظالم و جابر حکومت کے ردعمل میں 23 مارچ 1940ء میں منٹو پارک لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی ۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد پھر مسلمانوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

1943ء میں ایک جلسے میں قائد نے فرمایا کہ گاندھی کے پاس بہت سے لوگ ہیں جبکہ میرے پاس صرف لیاقت علی خاں ہے۔اسی سال لیاقت علی خاں کو دوبارہ اعزازی جنرل سیکرٹری چنا گیا۔قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو مسلم لیگ کی طرف سے وزارت کے لیے لیاقت علی خاں کو چنا گیا۔انہیں وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔ 1946 ء میں عبوری حکومت کے ہاتھوں بننے والے بجٹ نے عام آدمی کو مسلم لیگ اور پاکستان کے قریب کیا۔ہندو بنیے کی پرزور مخالفت کے باوجود بر صغیر میں پہلی بار عوامی بجٹ تیار ہوا۔انگریزوں کے لگائے گئے بے تحاشہ ٹیکسز سے عوام کو نجات ملی۔سود کے شکنجے میں کسے ہوئے عام آدمی کو ریلیف ملا۔

14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو لیاقت علی خاں کو پہلا وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔قائد کی گرتی صحت ،نوزائیدہ حکومت،مہاجرین کے مسائل،ارض پاک کا دفاع یہ سب فرائض لیاقت علی خاں نے بخوبی نبھاۓ ۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات کی آگ نے پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اس وقت ضروری تھا کہ معرض وجود میں آنے والے دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنا اپناکردار ادا کرتیں۔ لیاقت علی خاں کو لوگوں کے جان و مال کا کتنا احساس تھا اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے معاشروں کی جاری جنگ کے دوران آپ خود جان کی پروا کیے بغیر ہندوستان تشریف لے گئے جہاں مشہور زمانہ نہرو۔لیاقت معاہدہ ہوا جس میں دونوں حکومتوں نے اقلیتوں کو یکساں حقوق دینے پہ اتفاق کیا اور اس کے لیے حکومتی سطح پر اقدام کرنے کا ایک دوسرے سے وعدہ کیا گیا جس کے نتیجے میں عوامی سطح پر نفرت کی آگ کم ہوئی اور لوگوں کو زندگی گزارنے کے لیے نئی نئی جہتیں ملیں اور اس عظیم کام کا سہرا صرف اور صرف لیاقت علی خاں کو جاتا ہے۔

1948 ء میں قائد کی وفات کے بعد لیاقت علی خاں کی ذمےداریاں مزید بڑھ گئیں اور ان ذمے داریوں میں سر فہرست پاکستان کا آئین تھا۔12 مارچ 1949ء کو آپ نے قرارداد مقاصد پیش کی جو آئین پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر بدقسمتی سے اس مقدس کام کو فوراً عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔معاشی طور پہ بد حال اور دفاعی لحاظ سے غیر محفوظ ملک کو مضبوط کرنے کے لیے اور دنیا میں اپنی شناخت کے لیے لیاقت علی خاں کو باہر کی دنیا سے رابطے ناگزیر لگے چنانچہ آپ نے مشرق وسطی ،یورپ اور امریکہ کے دورے کیے۔پاکستان کے تعلقات عالمی سطح پر استوار کرنے کی مخلصانہ کوشش کی اپ کا یہ دورہ ملک کے اندر اور باہر کیمونسٹ انقلاب کے حامی لوگوں کو ہضم نہیں ہوا اور آپ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مشہور زمانہ راولپنڈی سازش ہوئی جس میں کچھ دانشور ،سویلین اور فوجی افسران شامل تھے۔سازش ناکام ہوئی اور سازشی کرداروں کو سزائیں ہو گئیں مگر ایک دفعہ اٹھنے والی چنگاری مکمل بجھ نہیں سکی۔ دوسری طرف سرحدوں پہ حالات کشیدہ رہے

اس مشکل وقت میں آپ کا لاہور کے ایک جلسے میں دشمنوں کے خلاف لہرایا مکا آج تک کوئی نہیں بھولا۔اس نازک دور میں اگر سربراہ مملکت ذرا سی بھی مصلحت کا شکار ہوتا تو شاید پاکستان کا جغرافیہ کچھ اور ہوتا۔ روالپنڈی سازش کیس اور سرحدی محاذ پہ کامیابی کے بعد آپ نے عوام سے رابطے کا فیصلہ کیا تاکہ عوام کو اپنی حکومت کے بعض معاملات میں اعتماد میں لیا جاسکے. اسی سلسلے میں آپ نے 16 اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ (موجودہ لیاقت باغ) میں جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ آپ اپنی تقریر کے ابتدائی الفاظ بھی ادا نہ کر پائے تھے کہ ایک افغانی سید اکبر نے پستول سے فائرنگ کر دی. گولیاں سینے میں لگنے سے آپ شدید زخمی ہوئے اور چند منٹوں میں ملک کو چمکتا ستارہ دیکھنے کی خواہش رکھنے والی بیدار آنکھیں ہمیشہ کے لیے سو گئیں۔ آپ کو قائد ملت اور شہید ملت کے لقب سے نوازا گیا۔

مخالفین آپ پہ کرپشن کے الزامات بھی لگاتے رہےمگر وفات کے بعد غسل دینے والوں نے گواہی دی کہ نوابوں کے گھر پیدا ہونے والے اور ملک کے وزیر اعظم کے تن پہ پھٹی ہوئی بنیان تھی۔آپ کا قتل پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔وہ معمہ جو آج تک حل نہ ہوا۔ ان کی وفات کے پون صدی بعد آج پھر بین الاقوامی حالات نئی کروٹ لے رہےہیں نیو ورلڈ آرڈر مرتب ہو رہا ہے۔حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان مضبوط دفاعی قوت بن کے ابھرا ہے۔ مگر یہ محض ایک جہت ہے۔ہمارے ملک کو عالم اسلام کا قلعہ کہا اور مانا جاتا ہے، ایک ایسا قلعہ جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کی آبیاری اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ہونی ہے۔جہاں انسانیت کو اشرف المخلوقات کا اصل رنگ دکھانا ہے۔مگر اس سب کے لیے اس ارض پاک کو پھر بیدار آنکھوں والے چاہئیں جو ماضی کی قربانیوں کو مستقبل کے خواب سے جوڑنے کا ہنر جانتے ہوں۔جو حال میں حائل رکاوٹوں کو پہچان کے ہماری اجتماعی زندگی کو پر سکون ، بامقصد اور باوقار بنا سکتے ہوں۔