ہوم << ادبی اعزازات یا ادبی سیاست؟ اخلاق احمد ساغر

ادبی اعزازات یا ادبی سیاست؟ اخلاق احمد ساغر

ادب کسی قوم کی روح ہوتا ہے، جو اس کی تہذیب، فکر اور احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک مہذب معاشرہ اپنے اہلِ قلم کی قدر کرتا ہے، اور انھیں وہ مقام دیتا ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں ایک خبر نے ادبی حلقوں کو متاثر کیا: بھارت کے ایک سادہ لوح شاعر ہلدھر ناگ کو پدما شری ایوارڈ سے نوازا گیا، حالاں کہ اس کے پاس نہ چھپی ہوئی کتاب تھی، نہ وسائل، صرف زبانی یاد کی گئی شاعری اور خلوصِ نیت۔ یہ مثال اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت میں اب بھی "ادبی میرٹ" کی بنیاد پر فیصلے ہو رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا پاکستان میں بھی ادبی ایوارڈز اسی میرٹ پر دیے جاتے ہیں؟

1. پاکستان میں ادبی ایوارڈز کا پس منظر
پاکستان میں مختلف قومی ایوارڈز، جیسے "صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی"، "ستارۂ امتیاز"، اور "نقوش ایوارڈ" جیسے نجی اعزازات ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکادمی ادبیات پاکستان اور دیگر ادارے بھی سالانہ ایوارڈز کا اہتمام کرتے ہیں۔

2. کیا ایوارڈز واقعی میرٹ پر دیے جاتے ہیں؟
یہ سوال خود پاکستان کے ادبی حلقوں میں بارہا اٹھایا گیا ہے، اور اکثر مایوسی کے ساتھ اس کا جواب "نہیں" میں دیا جاتا ہے۔ چند اہم نکات:
سفارش اور تعلقات: بیشتر صورتوں میں ایوارڈ حاصل کرنے والوں کا کسی نہ کسی بااثر شخصیت یا لابی سے تعلق ہوتا ہے۔ اہل اور گمنام ادیب اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔
عمر کی بجائے عہدے کی بنیاد: کئی بار ایوارڈ ایسے افراد کو دے دیے جاتے ہیں جنھوں نے حال ہی میں کسی مقتدر ادارے میں مقام حاصل کیا ہو، جبکہ دہائیوں سے کام کرنے والے خاموش قلم کار پیچھے رہ جاتے ہیں۔
سیاسی اثرورسوخ: بعض ایوارڈز کے فیصلوں میں سیاسی مفادات اور سرکاری ترجیحات کا عمل دخل ہوتا ہے، جس سے اصل میرٹ متاثر ہوتا ہے۔
ادبی حلقوں کی گروہ بندی: پاکستان میں کئی ادبی تنظیمیں اور لابیاں موجود ہیں، جو صرف اپنے وابستگان کو آگے لاتی ہیں۔ آزاد خیال اور غیر وابستہ ادیبوں کو موقع کم ہی ملتا ہے۔

3. کچھ مثبت مثالیں بھی موجود ہیں
یہ کہنا بھی مکمل طور پر درست نہ ہو گا کہ ہر ایوارڈ بے بنیاد ہوتا ہے۔ کچھ ایسی شخصیات بھی ایوارڈ یافتہ ہیں جو واقعی ادب میں نمایاں خدمات انجام دے چکی ہیں، جیسے احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، پروین شاکر، فہمیدہ ریاض، جون ایلیا، اور دیگر۔

4. حل کیا ہے؟
شفاف نظام: ادبی ایوارڈز کے لیے ایک آزاد، باوقار اور شفاف جیوری ہونی چاہیے، جس میں مختلف مکتبِ فکر کے اہلِ علم شامل ہوں۔
ادبی سوانح اور کارکردگی کی بنیاد: ایوارڈز صرف ادبی کام، تسلسل، اور اثرات کی بنیاد پر دیے جائیں۔
نوجوان اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی: اُن نوآموز مگر باصلاحیت لکھاریوں کو سراہا جائے جو خلوص سے ادب کی خدمت کر رہے ہیں، خواہ وہ کسی ادارے یا لابی سے وابستہ نہ ہوں۔

حرف آخر
ہلدھر ناگ کی کہانی صرف ایک شاعر کی نہیں بلکہ اس بات کی گواہی ہے کہ جہاں سچائی اور ادب کی قدر ہو، وہاں وسائل کی کمی رکاوٹ نہیں بنتی۔ پاکستان میں اگر ہم واقعی ادبی میرٹ کو اپنائیں، تو ہمارے ہاں بھی ایسے بے شمار گوہر نایاب سامنے آ سکتے ہیں جو آج بھی گمنامی کے اندھیروں میں اپنا چراغ جلائے ہوئے ہیں۔