غلامی ایسی حالت کا نام ہے کہ جس میں کوئی بھی انسان دوسرے کے تابع ہو کر زندگی اس طرح سے بسر کرے کہ اس کے تمام فیصلوں کا اختیار اس کے آقا کے پاس ہو۔ غلامی کی سب سے مکروہ شکل ذہنی غلامی اور سب سے کم درجے والی جسمانی غلامی ہے۔ آدمی جس کو بہتر محسوس کرتا ہے اس کی عادات و اطوار ، چال ڈھال ، لباس بولنے کا انداز حتیٰ کہ زندگی کے اجزاءتک وہیں سے لیتا ہے۔
بقول اقبال
غلامی کیا ہے ؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیباکہیں آزاد بندے ، ہے ،وہی زیبا
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
طاقتور اور کمزور، غلام اور آقا ، بادشاہ اور رعایا کا تصور اتنا ہی پراناہے جتنی کہ انسانیت کی تاریخ، ہر دور میں طاقتور نے طاقت کے نشے میں کمزور کو دبانا چاہا کیونکہ طاقت اور اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے ۔پرانے زمانے میں غلامی کی بدترین شکل رائج تھی۔ اسلام کی آمد سے قبل غلامی کا جو تصور موجود تھا وہ اپنی قبیح ترین شکل میں تھاجس میں انسانوں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ جہاں انسانوں ( غلاموں)کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ اس وقت کے حالات کے مطابق جو زیادہ مضبوط اور جسمانی لحاظ سے زیادہ زیادہ طاقتور ہوتا اس کی قیمت اس کے مطابق لگتی تھی اور غلام جومحنت مزدوری کرتا وہ اپنے آقا کو لا کر دینے کا پابند تھا اور آقا اگر کوئی رحمدل ہوتا تو کچھ روزی روٹی اور پہننے کو مل جاتا وگرنہ بھوک اور پیاس ہی ان غلاموں کا مقدر ہوتی۔ اسلام نے آکر اس نظام کو بدلا اور غلاموں کو آزاد کرنا ایک بہت بڑی نیکی ٹھہرا اور اسی طرح اسلام نے اپنی سنہری تعلیمات میں اس بات پر زور دیا کہ جو خود پہنو اپنے غلاموں کو بھی وہی پہناﺅ اور جو خود کھاﺅ اپنے غلاموں کو بھی وہی کھلاﺅ۔اسلام نے اپنی تعلیمات سے دنیا کو بتایا کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور ہر انسان کوحقوق و فرائض کے دائرے میں رہتے ہوئے اللہ کی بندگی اختیار کرے، کوئی انسان کسی انسان کو غلام نہیں ہوسکتا۔ فقط اللہ تعالیٰ کی بندگی انسانوں کو مطلوب اور مقصودہے۔ خطبہ حجة الوداع کے موقع پر اللہ کے پیارے رسول کے کہے ہوئے سنہری الفاظ ” کسی گورے کو کالے پر، کسی کالے کو گورے پر ، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں۔“ عزت اور توقیر کا معیار (تقویٰ) بندگی رب قرار پایا۔ بعد ازاں خلفاءراشدین کے سنہری دور اور دیگر ادوار میں بھی انسانوں کو شرف انسانیت کی بنیاد پر ہی قابل عزت ٹھہرایا جاتا رہا۔ بنو عباس، بنو امیہ اور بعد ازاں خلافت عثمانیہ میں بھی یہ رمق کسی نہ کسی دائرے میں موجود رہی۔
غلامی کا یہ تصور کسی قدر ہولناک اور خطرناک ہے ۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ بر صغیر پاک و ہند میں انگریز نے سوسال حکومت کی اور اس دوران انگریزوں کی مجموعی تعداد کبھی بھی پچیس ہزار سے زیادہ نہیں رہی ۔ جبکہ لاکھوں مسلمان، ہندو اور سکھ ان کی غلامی پر مجبو رتھے۔ اصلاً یہ ایک ذہنی غلامی تھی ۔ اب اندازہ لگائیں کہ برصغیر کے لوگ انگریز کا ایک من وزن صرف ایک روپے میں راولپنڈی سے مری لے کر جاتے تھے۔ ان کے پاﺅں میں جوتے تک نہیں ہوتے تھے۔ پنڈی سے مری تک ستر کلومیٹر کا سفر ایک من وزن کے ساتھ دو دن میں مکمل ہوتا تھا۔” یہ لوگ انگریز کی خدمت کرتے۔ اپنی پیٹھ پر سوا ر کرکے سیر کرواتے اور انگریز خوش ہو کر اپنا بچا ہوا کھانا انہیں عنایت فرماتے۔ “ یہ خوشی سے دیوانے ہوجاتے ۔ برطانیہ میں ایک مائیگریشن رجسٹر ہے جس میں برطانیہ سے ہندوستان جانے والے پندرہ ہزار چار سو سنتالیس فوجیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں جبکہ تین لاکھ سے زائد ہندوستانی تھے جو انگریز فوج میں بھرتی ہوئے ۔ گویا انگریز نے کمال مہارت سے برصغیر کے لوگوں کو ذہنی غلامی کی جکڑ بندیوں میں اتنی مضبوطی سے باندھ دیا کہ اس کی گرفت آج تک موجود ہے۔
اسی طرح سقوط بغداد کے وقت کہتے ہیں کہ ہلاکو خان کی فوج کو کوئی سپاہی بغیر تلوار کے بازار میں گھوم رہا ہوتا اور کسی مقامی باشندے کو قتل کرنا چاہتا تو اسے حکم دیتا کہ تم یہیں پر میرا انتظا کرو ، وہ فوجی گھر سے تلوار لے کر آتا اور اس کا سر قلم کرتا جبکہ یہ مقامی باشندہ اتنا عرصہ ادب اور احترام کے ساتھ اس کے آنے کا انتظار کرتا ۔ آپ اس ذہنی غلامی کا تصور کریں تو آپ کی روح کانپ جائے گی کہ کس طریقے سے مسلمانوں کو ان کی تہذیب ، تمدن اور ان کی تاریخ سے دور کیا گیا۔
نو آبادیاتی نظام سے پہلے ، نو آبادیاتی نظام کے دوران اور بعد میں بھی اس نظام نے مسلمانوں کی مجموعی شناخت کو بری طرح مسخ کیا اور جب انگریزوں کو یقین ہوگیا کہ اب یہ نظام نہیں چل سکتا کیونکہ شرق اور غرب میں آزادی کی تحریکیں سر اٹھا رہی تھیں تو استعمار نے ایک نیا جال بنا۔ جب دو عالمی جنگوں نے لیگ آف نیشن کی جڑی کھوکھلی کردیں تو دنیا پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی جگہ اقوام متحدہ کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں لایا گیا۔ اگرچہ ادارہ نیا تھا لیکن اس کی نفسیات میں اہداف سارے پرانے ہی تھے یعنی ایک حصہ جنرل اسمبلی اور دوسرا حصہ سلامتی کونسل۔ اہل مغرب کا کمال دیکھیں کہ جنرل اسمبلی کو تقریری مقابلے کا ادارہ بنادیا جہاں پر دنیا بھر سے لوگ جمع ہوتے ہیں لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ عالم اسلام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ جبکہ سارے اختیارات سلامتی کونسل کو تفویض کردیے گئے ہیں اور ساتھ ہی سلامتی کونسل پر پانچ بڑوں نے قبضہ بھی کرلیا یعنی غلامی کا نیا جال اور شکار کا نیا طریقہ واردات ۔ یہی سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر ہو یا فلسطین ،جس طریقے سے مسلمانوں کااستحصال کرتے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے ابلاغی محاذ ، بینکنگ اور فنانس ، نیو ورلڈ آرڈر ، آئی ایم ایف، ملٹی نیشنل کمپنیز کے ذریعے سے دنیا بھر کی معاشی سرگرمیوں کا کنٹرول بھی انہی کے قبضے میں ہے۔ الغرض دنیا کو غلام بنانے کا جدید اور نیا نظام متعارف کروایا گیا البتہ خوبصورت نعروں سے اس کو مزین کیا گیا جیسا کہ حقوق نسواں، انسانی حقوق ، عدل و انصاف ، مساوات ، جمہوری آزادیاں وغیرہ وغیرہ۔ اب کہنے اور سننے میں یہ نعرے تو بہت ہی بھلے محسوس ہوتے ہیں جبکہ ان کی آڑ میں ایک مکروہ اور غلامانہ نظام دنیا پر مسلط کیا گیا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈالر کی دنیا 60ہزار ارب ڈالر سے زائد کی دنیا ہے۔ یورپی کرنسی یورو کی دنیا25سے30ہزار یورو سے زائد کا سرمایہ اور اثاثہ رکھتی ہے۔ اس کا سادہ اور آسان مطلب یہ ہوا کہ مغربی دنیا تقریبا70ہزار ارب ڈالر کے سرمائے اور اثاثے کی دنیا ہے۔ یعنی دنیا کی معیشت کا بڑا حصہ ان طاقتوں کے قبضے میں ہے اور بقیہ دنیا کو لوٹنے کے لیے ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف استعمار کا بنیادی اور کلیدی ہتھیار ہے۔ پہلے جو کام فوج کشی کے ذریعے کیا جاتا تھا اب وہ کام نہایت ہی سلیقے ، تدبر اور Sophisticated طریقے سے کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ ہم تو دنیا کے خیر خواہ ہیں۔
پوری دنیا کا ابلاغی محاذ ان کے ناجائز قبضے میں ہے، جس کو چاہیں ہیرو بنادیں اور جس کو چاہیں زیرو۔ابھی فقط ایک سال میں انسان ، انسانی حقوق ، مساوات، عدل و انصاف ، حق آزادی رائے کی جو پامالی غزہ اور فلسطین میں دیکھنے کو ملی ہے اس نے انسانیت کے سر شرم سے جھکادیے ہےں۔ بربریت کی ایک انوکھی داستان ہے جس کا غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کو سامنا ہے۔ بچے، خواتین، سکولز، ہسپتال، سڑکیں، مسجدیں، پوری کی پوری آبادیوں کو ملیامیٹ کردیا گیا ہے لیکن انسانی حقوق کا چمپیئن پھر بھی امریکہ اور اسرائیل ہی ٹھہرا ۔ بھارت پون صدی سے کشمیریوں کاحق آزادی دبائے بیٹھا ہے لیکن جمہوریت کی تسبیح کرتے نہیں تھکتا ، یہ ہے دور جدید کی وہ ذہنی ، معاشی اور ابلاغی غلامی کہ جس نے پوری انسانیت کو بری طرح سے اپنے پنجوںمیں جکڑا ہوا ہے۔ لیکن خوشی اور اطمینان کی بات اب یہ ہے کہ آج کا انسان اس کو سمجھ بھی رہا ہے ، مزاحمت بھی کررہا ہے ، کوشش اور جدوجہد بھی کررہا ہے ، لہٰذا امید کی جاتی ہے کہ انشاءاللہ اس دور جدید کی غلامی سے انسانیت کو چھٹکارا ملے اور اسلام کی روشن تعلیمات سے دنیا منور ہو ۔ انشاءاللہ اب یہ ہو کر ہی رہے گا۔ آئیے اپنے حصے کا کردار ادا کیجئے۔ بولیے! لکھےے!سوچئے! ساتھ دیجئے اور الٹ دیجئے !!!
تبصرہ لکھیے