ہوم << نئے جنگی حربوں میں ٹیکنالوجی، بیانیہ اور حکمت کا امتزاج - نصیب باچا یوسفزئی

نئے جنگی حربوں میں ٹیکنالوجی، بیانیہ اور حکمت کا امتزاج - نصیب باچا یوسفزئی

دنیا کی تاریخ میں کچھ خطے ایسے ہوتے ہیں جو صرف جغرافیہ نہیں، ایک مسلسل سانحہ ہوتے ہیں۔ جن کا ہر منظر، ہر موڑ ایک نئے المیے کو جنم دیتا ہے۔ جنوبی ایشیا ان میں سے ایک ہے۔ یہاں جنگیں صرف بارودی نہیں ہوتیں، یہ انسان کی فکری کم مائیگی، سفارتی ناکامی اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی بدنصیبی کا استعارہ بن جاتی ہیں۔پاک-بھارت حالیہ کشیدگی کوئی پہلی بار نہیں، لیکن اس بار جنگ نے ایک نیا چہرہ دکھایا۔ یہ نہ صرف توپ و تفنگ کی گھن گرج تھی، بلکہ ڈرون کی خاموشی، بیانیے کی شدت، اور عالمی سفارت کاری کی چالاکیوں کا ملاپ تھا۔ اور جب بیانیہ، بارود اور بصیرت ایک ساتھ میدان میں اتریں، تو صرف سرحدیں نہیں، دنیا کی نظریں بھی لرزنے لگتی ہیں۔

بھارت نے ایک بار پھر اپنی عسکری عظمت کے خواب یورپی و اسرائیلی ٹیکنالوجی پر بُنے۔ فرانسیسی رافیل، اسرائیلی Harop، روسی S-400، یہ وہ نام تھے جو ایک سپرپاور کی خواہش کا سہارا بنے۔ مگر یہ خواب اُس وقت چکناچور ہوتے ہیں جب جدید ہتھیار کسی ایسی سوچ کے تابع ہوں جو صرف نمائش چاہتی ہو، فہم نہیں۔

اس کے برعکس، پاکستان نے چینی J-10C، HQ-9B، اور Fatah-2 کو صرف ہتھیار نہیں بلکہ ایک دانشورانہ حکمتِ عملی کا حصہ بنایا۔ چینی ٹیکنالوجی کی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف سختی نہیں دیتی، یہ ہم آہنگی سکھاتی ہے، جس میں ہتھیار اپنے جغرافیے، معاشرت اور ضرورت کے تابع ہو جاتے ہیں، غلام نہیں بنتے۔ یورپی اسلحہ ایک شاہی لباس کی طرح ہے، خوبصورت مگر ناپ کا محتاج؛ جبکہ چینی اسلحہ ایک مزدور کی قمیص کی مانند ہے، سادہ، سستا، لیکن وقت پر مددگار۔

یہ فرق صرف جنگی نتائج میں نہیں، فلسفے میں تھا۔ یورپ کی ٹیکنالوجی ایک بازاری برانڈ کی طرح بیچی گئی، جبکہ چین نے پاکستان کے لیے ایک اشتراکِ دانش پیدا کیا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں جدید جنگ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی، جہاں مقامی دانش اور بین الاقوامی سٹریٹجک ہم آہنگی اصل فتح بن گئے۔

میدانِ جنگ اب محض زمینی یا فضائی حدود تک محدود نہیں رہا؛ ایک نیا، غیر مرئی مگر نہایت حساس محاذ، سائبر اسپیس، جدید جنگوں میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کی خاموش مگر مؤثر سائبر صلاحیتوں نے بھارتی دفاعی نظام کو غیر محسوس انداز میں چیلنج کیا۔ حساس فوجی فریکوئنسیز میں مداخلت، سرکاری ڈیٹا بیسز تک ممکنہ رسائی، اور کمیونیکیشن نیٹ ورکس میں رخنہ ڈالنے جیسے اقدامات نے دشمن کی رفتار کمزور کی اور اس کے اعتماد کو متزلزل کیا۔ اگرچہ یہ محاذ عوامی نظروں سے اوجھل رہا، مگر عسکری اور انٹیلیجنس ادارے بخوبی جانتے ہیں کہ 21ویں صدی کی جنگیں صرف گولہ بارود سے نہیں بلکہ کوڈز، الگورتھمز اور ڈیجیٹل مہارت سے جیتی جاتی ہیں۔ جب دشمن کے کمپیوٹرز خاموش ہو جائیں، تو سمجھ لیجیے اُس کی حکمتِ عملی بھی ہار چکی ہے۔

دنیا کی نظروں میں جنگ شاید صرف میزائلوں اور طیاروں کی دوڑ ہے، مگر اصل معرکہ سفارت کاری کا تھا۔ بھارت نے روایتی طور پر امریکہ، فرانس، اسرائیل اور روس پر انحصار کیا۔ لیکن وقت آنے پر یہی "دوست" خاموش تماشائی بنے رہے۔ امریکہ نے رسمی تشویش ظاہر کی، فرانس نے انسانی حقوق کی بات کی، روس نے نظریں چرا لیں۔ بھارت نے جب اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو وہاں چین پہلے سے موجود تھا، پاکستان کے ساتھ۔

ترکی نے پاکستانی مؤقف کو اپنے میڈیا میں بڑھ چڑھ کر پیش کیا، اور OIC نے ایک بار پھر کشمیر کو بین الاقوامی ایجنڈے پر لا کھڑا کیا۔ پاکستان نے نہ صرف عسکری محاذ پر بلکہ سفارتی محفلوں میں بھی اپنی موجودگی کا لوہا منوایا۔ اور یہی اصل جیت تھی، کیونکہ جنگ وہی جیتتا ہے جو امن کی زبان میں بات کر سکے۔

اگر بیسویں صدی میں ریڈیو اور اخبار جنگ کے ہتھیار تھے، تو آج فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، اور ٹک ٹاک وہ میدان ہیں جہاں قومیں اپنی فکری بقاء کی جنگ لڑتی ہیں۔ پاکستانی نوجوان، طلبہ، صحافی، اور عام شہریوں نے ایک مربوط اور باشعور بیانیہ پیش کیا، بھارت کی دھمکیاں سنجیدہ نہیں لی اور جس نے بھارتی پروپیگنڈے کو زائل کر دیا۔

یہ محض الفاظ کا ردعمل نہیں تھا، بلکہ ایک اجتماعی شعور کی جھلک تھی۔ وہ شعور جس کی بنیاد صرف حب الوطنی نہیں، بلکہ انصاف، سچائی، اور زمینی حقیقتوں سے جُڑی ہوئی تھی۔ جب قومیں شعور سے لڑتی ہیں، تو ان کی جیت صرف سرحدوں پر نہیں، دلوں میں ہوتی ہے۔

یہ کشیدگی صرف جنوبی ایشیا کا مسئلہ نہیں رہی۔ دنیا نے ایک بار پھر یہ سیکھا کہ جب دو جوہری طاقتیں ٹکرائیں، تو عالمی سفارت کاری کو صرف تماشائی نہیں، ثالث بننا پڑتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو اپنی دیرینہ سفارتی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی پڑی، اور چین نے اپنی عالمی سٹریٹجک حیثیت کو ایک بار پھر مستحکم کیا۔

اس جنگ نے دنیا کو بتایا کہ امن کا توازن اب صرف مغرب کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ مشرقی طاقتیں، چین، ترکی، خلیجی ریاستیں، اب نہ صرف اقتصادی میدان میں بلکہ سفارتی توازن میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔

آخر میں، یہ سوال ہمارے ضمیر پر رہتا ہے: کیا ہم واقعی جیت گئے؟ سرحد کے دونوں طرف ماؤں کی گودیں اجڑیں، بچے سکول کے بجائے پناہ گاہوں میں چھپے، کسانوں کے کھیت بارود کی بو سے بھسم ہو گئے۔ میزائلوں کی کامیابی اور بیانیے کی برتری اپنی جگہ، مگر انسانیت کا شکست خوردہ چہرہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔

امن کی جیت وہی ہوتی ہے جو آئندہ نسلوں کو خواب دے، خوف نہیں۔ پاکستان نے اس جنگ میں جو کچھ حاصل کیا، وہ اسی وقت مکمل ہو گا جب ہم اس برتری کو امن کی بنیاد بنائیں، جہاں CPEC علم کا مرکز بنے، OIC فکری اشتراک کا فورم بنے، اور چینی ٹیکنالوجی نوجوانوں کے ہاتھوں میں تحقیق کا ہتھیار بنے۔

ہمیں جنگوں کی نہیں، وژن کی ضرورت ہے۔ وہ وژن جو میزائل سے نہیں، مائیکروسکوپ سے آتا ہے؛ جو جنگی طیارے نہیں، تعلیمی ادارے بناتا ہے۔ جنوبی ایشیا کو اب ٹینکوں کی دوڑ سے نکال کر آئیڈیاز کے کنارے پر بٹھانا ہو گا۔ کیونکہ جس زمین کو ہم بارود سے سینچتے ہیں، وہ کبھی زندگی نہیں اگا سکتی۔