وطن عزیز پر گزشتہ چند برسوں سے ایک جنگ مسلط ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا اس وقت کی بنیادی ضرورت ہے۔ دہشت گردی بلاشبہ معاشرے کا ایک ناسور بن چکا ہے لیکن لیکن لا علاج ہرگز نہیں ہے۔ میری دانست میں اہم اقدامات یہ ہو سکتے ہیں.
سب سے پہلے تو حکومت وقت کا تذکرہ، بدقسمتی سے جب سے وطن عزیز دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہا ہے، ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں اس کی حیثیت ثانوی یا اس سے بھی نیچے رہی۔ محض ایک آدھ ادارہ بنانے یا چند مذمتی بیان داغنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے سنجیدگی سے ٹھوس اقدامات اور مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے۔ مثلا ایک بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات کا اپنی مرضی کی سوچ کے مطابق استعمال کیا جانا ہے۔ دوسری اہم وجہ بےروزگاری ہے۔اسلامی ملک ہونے کے ناطے حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ عوام تک صحیح اسلامی منہج پہنچائے. بے روزگاری کی وجہ سے مہ ذب اور پڑھا لکھا طبقہ بھی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔ روزگاری کی فراہمی بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے.
علماء کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ اشرافیہ نے علماء اور عوام کے مابین خلیج پیدا کرنے کی انتھک کوشش کی ہے۔ علماء سے عوام کو روحانی عقیدت ہوتی ہے۔ عوام ان کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہیں. اگر علمائے کرام اور عوام قریب آجائیں تو دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ عوام اور علماء کی قربت کے حوالے سے سعودی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں مقامی سطح پر کھیلوں کے میدان تک آباد کرنے میں بھی علماء کا کردار ہے۔ اس کے دو فائدے ایک تو نوجوانوں کوتفریح کے نام پر مثبت سرگرمیوں میں مشغول رکھنا، اور دوسرا کھیل کے میدان میں بھی دینی تعلیم کا فروغ۔
عوام کا کرداربھی نہایت اہم ہے۔ کسی بھی تحریک یا جنگ میں عوامی حمایت کے بغیر کامیابی کا حصول تقریبا ناممکن ہے۔ تحریک آزادی پاکستان ہو یا پاک بھارت جنگیں، عوام نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ حالیہ برسوں میں سوات و وزیرستان میں پاک فوج کی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی عوامی حمایت کے بغیر ناممکن تھی۔ ان تمام مواقع پر عوام اگر نکلی تو اس کی اھم وجہ عوامی اتحاد تھا۔ عوام کو روشن مستقبل کا راستہ دکھا کر متحد کیا گیا۔ آج بھی یہ کام ہو سکتا ہے اور فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے.
اساتذہ یا تعلیمی اداروں کا کردار بھی اس جنگ میں نہایت اہم ہے۔ طلبہ اور نوجوانوں کی ذہن سازی اور دہشت گردی کے خلاف ان کی ذہن سازی اور انھیں متحرک کرنے میں ان کا کردار نہایت اہم ہے. ہمیں مثبت طریقے سے ذہن سازی کی ضرورت ہے
بلاشبہ ہمارے سکیورٹی ادارے پوری جانفشانی سے اس اہم جنگ میں مصروف عمل ہیں اور نہایت اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کا شکوہ ہے کہ بےگناہ لوگ بھی نشانہ بنے ہیں۔ اس پہلو پر توجہ دی جائے تو اتفاق رائے میں اضافہ ہوگا اور جنگ کو جلد نتیجہ خیز بنانے میں مدد ملے گی۔
آخر میں عدلیہ پر بڑی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جو مجرم یا دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں، اگر ان کے پس پشت مضبوط سیاسی طاقتیں ہوں تو وہ مجرم مکھن سے بال کی طرح انصاف کا جنازہ نکالتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ عدلیہ کو انصاف پر مبنی جلد از جلد فیصلے کرنے ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہماری عدلیہ اگر انصاف پر مبنی فیصلہ سنادے تو نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں ٹانگ اڑانے آ جاتی ہیں۔ اس سے بھی یہ جنگ متاثر ہو رہی ہے۔ عدلیہ کو انصاف کی بالادستی کے لیے روڑے اٹکانے والوں پر توجہ نہین دینی چاہیے۔
تبصرہ لکھیے