شہر عزیمت کے حالات نے فاقہ کشی اور بھوک مری سے متعلق میرا بہت پرانا موقف تبدیل کر ڈالا!
ادارت کے بالکل ابتدائی دور، یعنی پچھلے پندرہ سولہ سال سے میرا یہ معمول تھا کہ اگر کبھی میرے سامنے بھوک مری کا لفظ آگیا، تو میں اسے کاٹ کر فاقہ کشی کردیا کرتا تھا۔
میرے اس موقف کی بنیادی وجہ میرا یہ ماننا تھا کہ، فاقہ کشی اور بھوک مری میں فرق ہوتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ، فاقہ کشی موت تک لے جائے ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ، دنیا کا مسئلہ بھوک مری نہیں، فاقہ کشی ہے، اور فاقہ کشی غذائی قلت کے کچھ مخصوص حالات کا نام ہے،
جس کے نتیجہ میں انسانی سماج بہت سے سماجی، نفسیاتی، اور طبی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے، اور یہ مسائل بسااوقات انسان کو، بالخصوص چھوٹے بچوں کو موت تک بھی لے جاتے ہیں۔
لیکن فی نفسہ فاقہ کشی اور غذائی قلت کے سبب انسان موت کا شکار ہوجائے، ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اور یہ اجتماعی اموات کا سبب بن جائے ایسا تو بالکل بھی نہیں ہوتا۔
کیونکہ غذائی اجناس کی قلت یا عدم دستیابی کی صورت میں انسان کے سامنے گھاس پھوس، پیڑ کے پتے اور آس پاس پھیلے دوسرے بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں جو اس کی جان کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔
فاقہ کشی اور غذائی قلت کے ان حالات کے مختلف اسباب میں خشک سالی، خطہ کے جغرافیائی حالات، اور معاشی تنگ دستی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
لیکن شہر عزیمت نے میرے موقف کو بالکل تبدیل کرکے رکھ دیا،
صرف میں نے ہی نہیں، دنیا بھر نے پہلی بار بھوک مری کے ایسے حالات کا مشاہدہ کیا ہے، جہاں:
- نہ پینے کا پانی دستیاب ہے
- نہ سانس لینے کے لیے ہوا موجود ہے
- نہ کھانے کے لیے کچھ غذا مہیا ہے
- نہ پیڑ پودے ہیں
- نہ چرند پرند ہیں
- اور نہ آس پاس دوسرے غذائی امکانات ہیں۔
اور یہ حالات خود بخود نہیں آئے ہیں،
نہ ہی ان کے پیچھے قدرتی اسباب ہیں،
اور نہ ہی دوسرے عمومی اسباب ہیں،
بلکہ ان حالات کو جان بوجھ کر اور ایک منصوبے کے تحت پیدا کیا گیا ہے،
اور اس کے پیچھے دنیا بھر کی کچھ جانی پہچانی اور انتہائی درندہ قسم کی طاقتیں ہیں۔
شہر عزیمت پر مسلط کردہ ان بحرانی حالات کا نتیجہ ہے کہ حمل، نومولود، کم عمر بچے، بوڑھے، عورتیں، بیمار اور دوسرے بہت سے لوگ موت کا شکار ہورہے ہیں۔
یہاں کے حالات فاقہ کشی اور غذائی قلت کے نہیں، صاف طور سے بھوک مری کے حالات ہیں۔
اور اس چرخ نیلی فام نے انسانی تاریخ میں پہلی بار اس خطرناک بھوک مری کا مشاہدہ کیا ہے، جس کے شکار کم یا زیادہ لاکھوں لوگ بنتے نظر آ رہے ہیں!
یہ انسانی دنیا پر ایسا بدنما داغ ہے جس کا اس سے پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا!!!
تبصرہ لکھیے