عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لڑائی میں، جس میں دشمن سے سامنا تھا، سورج ڈھلنے کا انتظار کیا۔ پھر ان کے بیچ کھڑے ہوکر فرمایا: ”لوگو! دشمنوں سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ لیکن جب ان سے مقابلہ ہو جائے، تو صبر سے کام لو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے“۔ پھر فرمایا:”اے اللہ! کتابوں کے نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے اور جتھوں کو شکست دینے والے! انھیں شکست سے دوچار کردے اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما“۔
ہندو پاک کی سرزمین پر جنگ کے طبل بج رہے ۔ ہمارے پاس بھی جنگ سے پناہ مانگتے ہوئے اللہ کی عافیت اور بہ وقت امتحان فتح و کامیابی مانگنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارتی فوجی دفاعی آلات کی فراہمی کا سب سے بڑی سورس روس کے بعد اسرائیل ہے۔ روس کے ساتھ بھارتی تعاون جاری ہے لیکن پہلے جیسی گرمجوشی باقی نہیں رہی ، وہ بھی یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے اسلحے کی قلت کا شکار ہے۔
ہماری خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ اسرائیل غزہ میں پھنسا ہوا اور مودی نے ہمارے ساتھ غلط وقت پر سینگھ پھنسا لیے ہیں ۔ دیڑھ سال کی غزہ کی جنگ نے اسرائیل کے اسلحہ خانے خالی کردئیے وہ بھی اس جنگ کو جاری رکھنے لے لیے امریکہ سے اسلحے و آلات کے مسلسل سپلائی کے محتاج ہیں ۔
اسوقت اسرائیل اور اس کے ابّاجی کی پوری ترجیح غزہ اور یمن ہے . ایران سے تو وہ نمٹ ہی چُکے ہیں اس لیے غزہ و یمن کی لڑائی کے دباؤ کی وجہ امریکی فوج کے اپنے محفوظ اسلحے کے ذخائر میں قلّت کا سامنا ہے فی الوقت ان کےاسلحے وہ جنگی آلات کی پیداوار کی حالیہ جنگوں میں استعمال سے بہت کم ہے۔ اسلیے اسرائیل و چاہنے کے باوجود بھارت کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔
ممکن ہے شہنشاہ عالم و عرف اسرائیل کے ابّاجی یا سرپرست اعلئ مودی کی مدد کرنا بھی چاہیں لیکن چونکہ اس وقت ان کی اپنی اولاد مشکل میں ہے اس لئے اس معاملے میں وہ کو کہنا پڑا پاکستان انڈیا تو ہزار سال سے لڑرہے ہیں وہ اپنا معاملہ خود ہی نمٹیں۔ اب مودی بھائی کچھ یتیم یتیم سا محسوس کررہے ہیں ۔
اس لحاظ سے ہمارے لیے فی الوقت غزہ کی جنگ و شھداء کی قربانی کی وجہ سے دونوں ٹیکنالوجیکل ایڈوانس دشمنوں کے پھنسنے کئ وجہ سے اس وقت ہم بھارت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی نسبتا بہتر پوزیشن میں ہیں اور یہ جنگ ہمارے لئے blessing in disguise ہی بن گئی ہے۔
دوسری طرف پاکستان اتنا مجبور نہیں ہے اسکے قریبی دوست چین و ترکی کسی نہ کسی حدتک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
چند دنوں قبل ترکی سے چھ مال بردار فوجی C130 طیاروں کی آمد (حالانکہ ترکی نے کسی قسم کے اسلحہ کی فراہمی کی تردید کی ہے) کی ہے پر کچھ نہ کچھ وجہ تو ہوگی ۔
ترکی کے صدر اردگان نے اپنے بیان میں گو پاکستان و بھارت کو تناؤ میں کمئ کی تلقین ہے پر ساتھ ہی لیکن گذشتہ روز ترکی کے صدر اردگان نے ایک بیان میں پاکستانی عوام کے غیرمتزلزل یکجہتی کااظہار کیا۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ باہمی دفاعی تعلقات، تجارت اور مختلف شعبہ جات میں تعلقات و تعاون کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔
دوسرا پڑوسی چین بظاہر اس معاملے میں خاموش ہے لیکن فضائی جنگ میں بھارت کی برتری کی بنیاد دو چیزوں پر ہے پہلا بھارت کا روس سے حاصل شدہ جدید ترین ائیرڈیفیس سسٹم S400، جو چین کے پاس بھی ہے۔ یہی وہ سسٹم ہے جس کی خریداری کا سودا کرنے کی پاداش میں امریکہ کو اپنے F-35 کی مشترکہ پیدوار کے منصوبے ترکی کو نکال دیا تھا، پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین بھی S400 ائیر ڈیفینس سسٹم استعمال کررہا ہے اور گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی پائلیٹس چینی فضائیہ کے ساتھ اس نظام سے نمٹنے کی مشقیں کررہے ہیں امید ہے کہ اب وہ بھارتی S400 کے ساتھ دوہاتھ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
بھارتی فضائیہ کے پاس دوسری برتری فرانس سے حاصل شدہ جدید ترین رفال کے طیارے کی صورت میں ہے ۔ ایک تو وہ پاکستانی ایف 16بلاک 52 طیاروں سے بہتر ہے (اگر پاکستان کو ایف 16 کے جدید ترین بلاک 72 مل جاتے تو وہ رفال کا مقابلہ کرنا ممکن تھا ۔لیکن امریکہ نے یہ طیارے ہمیں فراہم کرنے سے انکار کردیا)۔
پھر رفال کا Meteor میزائل کی رینج تین سو کلومیٹر ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی میزائل نہیں ہے۔
چین کے پاس PL-15 میزائل ہیں جن کی رینج 200 کلومیٹر سے زائد تو ہے۔ لیکن چین یہ ماڈل کسی دوسرے ملک کو فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کا نسبتا کم رینج کا PL-15E فروخت کرتا ہے۔ لیکن حالیہ تناؤ کی صورتحال میں چین نے ہنگامی طور پر پاکستان کو اپنی فضائیہ کے زیراستعمال اسٹاک میں سے 200 کلومیٹر سے زائد مار کی صلاحیت رکھنے والے میزائل PL-15 فراہم کئے جو پاکستان نے اپنے JF-17 بلاک تھری میں لگا کر تصاویر بھی جاری کردیں۔
اس لحاظ سے پاکستان سوائے بحریہ کے کم از کم فضائی اور بری جنگ میں بھارت کا سامنا کرنے کے قابل ہے۔ بحری فوج واقعتا انتہائی کمزور اس مرض کا فی الحال ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ۔ کہ 2025 کئ گلوبل نیول پاور رینکنگ میں بھارتی بحریہ دنیا کی ساتویں بڑی نیوی ہے جبکہ پاکستان نیوی کی 29 ویں۔ ممکن ہے یہاں بھی سی پیک سے چینی دلچسپی اور انویسٹمینٹ کے تحفظ کے لیے چینی بحریہ کو گوادر کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری اُٹھانی پڑے گی۔ اور پاکستان نیوی و فضائیہ مشترکہ طور پر کراچی کی بندرگاہ کا تحفظ کریں۔
جب تک امریکہ و اسرائیل مشرق وسطیٰ میں پھنسے ہوئے ہیں بھارتی وزیراعظم مودی کے لیے بہتر اس جنگ کو کسی بہتر موقعے کے لیے ٹال دے ۔ لیکن وہ اسوقت اپنی بڑکوں کا یرغمال بن گیے ہیں فوری پیچھے ہٹنے کے نتیجے میں بھارتی عوام کو اپنے مرد آہن و *چھپّن انچ کے سینے* کی بڑک کا تحفظ کیسے کرے؟
پیچھے ہٹتا تو بھارتی پبلک سامنے شرمندگی ہوتی ہے۔ پھر بھی چانکیا کے پیروکار بھارتی لیڈر کسی نہ کسی بہانے سے یوٹرن لینے میں دیر نہیں کریں گے، اس وقت تک ۔۔۔۔
شکاری خود یہاں شکار ہو گیا ۔۔
تبصرہ لکھیے