ہوم << تمہارے ہجر کے موتی - ثمینہ سید

تمہارے ہجر کے موتی - ثمینہ سید

تمہارے ہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
عجب اک خوف سے ہر دم
کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں
گرے تو ٹوٹ بکھریں گے
تمہارےہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
یہاں گنجان رستوں پر
یہاں پرپیچ گلیوں میں
جدائی رقص کرتی ہے
جلے آوُ تو اچھا ہے
کہ اب تو تھک چکی آنکھیں
تمہارے ہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
یہاں کچھ بھی نہیں بدلا
اسی پہلے طریقے سے تمہاری منتظر آنکھیں
لگی رہتی ہیں چوکھٹ سے
کوئی آہٹ نہیں ہوتی
کوئی سایہ نہیں دکھتا
ذرا سی جھرجھری لے کر
میں آنکھیں کھول دیتی ہوں
عجب اک خوف سے ہر دم
کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں

Comments

Avatar photo

ثمینہ سید

ثمینہ سید کا تعلق بابا فرید الدین گنج شکر کی نگری پاکپتن سے ہے۔ شاعرہ، کہانی کار، صداکار اور افسانہ نگار ہیں۔ افسانوں پر مشتمل تین کتب ردائے محبت، کہانی سفر میں اور زن زندگی، اور دو شعری مجموعے ہجر کے بہاؤ میں، سامنے مات ہے کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ رات نوں ڈکو کے عنوان سے پنجابی کہانیوں کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ مضامین کی کتاب اور ناول زیر طبع ہیں۔ پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ریڈیو کےلیے ڈرامہ لکھتی، اور شاعری و افسانے ریکارڈ کرواتی ہیں

Click here to post a comment