تمہارے ہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
عجب اک خوف سے ہر دم
کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں
گرے تو ٹوٹ بکھریں گے
تمہارےہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
یہاں گنجان رستوں پر
یہاں پرپیچ گلیوں میں
جدائی رقص کرتی ہے
جلے آوُ تو اچھا ہے
کہ اب تو تھک چکی آنکھیں
تمہارے ہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
یہاں کچھ بھی نہیں بدلا
اسی پہلے طریقے سے تمہاری منتظر آنکھیں
لگی رہتی ہیں چوکھٹ سے
کوئی آہٹ نہیں ہوتی
کوئی سایہ نہیں دکھتا
ذرا سی جھرجھری لے کر
میں آنکھیں کھول دیتی ہوں
عجب اک خوف سے ہر دم
کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں
تمہارے ہجر کے موتی - ثمینہ سید

تبصرہ لکھیے