تری آنکھ میں پھیلے
سرخ انگارے کی حدت سے
پگھلتی جا رہی ہوں
ترا خاموش رہنا ہی
مرے دل کے نہاں خانے میں جیسے شور کرتا ہے
تمھاری سرخ آنکھ میرے اندر
رنگ بھرتی ہیں
کبھی رونے نہیں دیتیں
تری تصویر اَن دیکھی سی ساعت ڈھونڈ لاتی ہے
جو خوابوں کو سجاتی ہے
میرے بجھتے ہوئے دل کو
دوبارہ زندگانی سونپ جاتی ہے
تری تصویر کہتی ہے
سنو پگلی ۔۔۔۔!
اگرچہ دل کے نخلستاں میں چاروں اور باڑیں ہیں
انھی باڑوں کے اندر ہم
حسیں موسم سجا لیں گے
میں ہر موسم کے کھلنے والے سارے پھول تیرے نام کرتا ہوں
سنو اے اجنبی ۔۔ !
مجھے موسم عزیز از جاں ہیں لیکن
دل کے منظر کو بدلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کبھی میں سہ نہ پاؤں گی
کہ دل کی سرزمیں کھلنے نہ کھلنے کی عجب سی
کیفیت میں ہے
مجھے کچھ تو دکھائی دے
کوئی صورت سجھائی دے
سنو اے اجنبی - ثمینہ سید

تبصرہ لکھیے