مری یہ نظم
پڑھنے سے ذرا پہلے
تم اپنے دل کے دامن کو
ذرا سا تھام لینا۔۔
اور
خزاں کو ذہن میں رکھنا
سنو جاناں ۔۔۔۔ !
مجھے تو روتے چہروں کو عطا کرنی ہیں مسکانیں
مجھے تو بانٹنی ہے شہر کے لوگوں میں بینائی
بلا سے اپنے دل کی کرچیوں سے کام، مجھ کو لینا پڑ جائے
میں لکھتی ہوں
تو لکھنے سے مری اس مختصر سی زندگی کو دائمی اک نام ملتا ہے
مجھے آرام ملتا ہے
مگر تم تو سمجھتے ہو
تمہیں تو سب پتہ ہے ناں
فسانے، رت جگے، نظمیں مری غزلیں
حیاتِ بے اماں میں سانس لینے جتنی لازم ہیں
یہی بس وہ حرارت ہے
جو خوں بن کر رگوں میں سرسراتی ہے
تمہیں تو سب پتہ ہے ناں
ہمارے درمیاں اک ہجر کی
رت ہے
مگر اس ہجر کی رت کا
مہکنا بھی ضروری ہے
اسی سے عشق کی تکمیل ہونی ہے
مجھے تم محفلوں میں
شعر پڑھتے، مسکراتے
زیر لب ہنستے ہوئے جو دیکھتے ہو ناں
تمہیں تو سب خبر بھی ہے
کہ
میں جو لفظ لکھتی ہوں
وہی میری حقیقت ہیں
مری یہ مسکراہٹ
جھوٹ ہے ،
میرا بھرم رکھنے کی کوشش ہے
تمھیں معلوم ہے،
زندہ نہیں ہوں میں
تمھیں وہ قہقہوں کی بارشوں میں بھیگتی لڑکی
کبھی اب مل نہ پائے گی
میں لکھتی ہوں تو
لکھنے سے
مجھے تو بانٹنی ہے شہر کے لوگوں میں بینائی
مجھے تو روتے چہروں کو عطا کرنی ہیں مسکانیں
تمہیں تو سب پتہ ہے ناں - ثمینہ سید

تبصرہ لکھیے