بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اکھنڈ بھارت کا نعرہ ایک خواب کی صورت بھارتی سیاست کے منظرنامے پر چھایا رہا۔ جنوبی ایشیا میں ہندوستان نے اپنی عسکری، سفارتی اور معاشی برتری کا ایسا نقش قائم کیا جس کے مقابل کسی دوسرے ملک کی حیثیت گویا ایک سائے سے زیادہ محسوس نہ ہوئی۔ نریندر مودی نے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کے ذہنوں میں یہ تصور کچھ اس انداز سے بٹھایا کہ ہندوستان کی مرضی ہی سب کچھ ہے، باقی ممالک کی خودمختاری یا خودداری ثانوی درجہ رکھتی ہے۔ مغرب کے ایوانوں میں بھی یہ تاثر گہرائی سے جاگزیں کیا گیا کہ جنوبی ایشیا میں واحد فیصلہ ساز قوت صرف بھارت ہے۔ اس خیال کی عملی جھلک کرکٹ جیسے کھیل میں بھی دیکھی گئی جہاں معمولی معمولی باتوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے ثابت کیا گیا کہ بھارت کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ معاشی میدان میں ہندوستان کی ترقی نے پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک جانب دنیا کی تیز ترین ترقی کرتی معیشت، دوسری جانب قرضوں میں جکڑی ایک بے حال ریاست—اس فرق کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اس معاشی تفاوت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی حکمرانوں نے عوام کے اذہان میں یہ نقش گہرا کر دیا کہ پاکستان ان کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو اسرائیل کے لیے غزہ یا فلسطین۔ جب چاہیں روند ڈالیں، جب چاہیں نقشہ بدل ڈالیں، اور جب چاہیں اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیر کی چادر اوڑھا دیں۔
تاہم یہ بھی ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ پاکستان اگرچہ معاشی اور سفارتی میدان میں پیچھے ہو، مگر دفاعی لحاظ سے ایک مستحکم قوت ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کی حقیقت نے ہمیشہ بھارتی جارحیت کو ایک حد سے آگے بڑھنے سے روکا ہے۔ مودی حکومت نے پہلگام کے واقعے کا الزام بلا تامل پاکستان پر دھر دیا، مگر کسی بھی عالمی فورم پر کوئی ثبوت پیش نہ کیا۔ بلکہ اس کے برعکس پاکستان کے خلاف سخت بیانیہ اختیار کر کے جلتی پر تیل ڈالا۔ مودی کی توقع یہ تھی کہ پاکستان نرمی دکھائے گا، بات چیت پر آمادگی ظاہر کرے گا اور بھارتی سیاست میں مودی کی بلے بلے ہو جائے گی۔ مگر پاکستان نے نہ صرف محتاط بلکہ سخت اور سنجیدہ مؤقف اختیار کر کے بھارت کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا۔
مودی نواز میڈیا نے روایتی شور شرابے اور جذباتی لفاظی کے ذریعے عوامی جذبات کو بھڑکایا، جنگ کی دہائیاں دی گئیں، مگر پاکستان نے اپنے ردعمل سے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ وہ نہ صرف دفاع پر قادر ہے بلکہ اگر جنگ کا آغاز بھارت کرے گا تو انجام پاکستان کے ہاتھوں لکھا جائے گا۔ اس غیر متوقع مگر نپے تلے ردعمل نے مودی سرکار کی سیاسی بساط کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ خود مودی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ چند دنوں سے بھارتی میڈیا کا رویہ بھی کچھ بدلا بدلا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شور مچاتے مچاتے خاموشی کی دہلیز پر جا رکا ہو، اور اب اندر ہی اندر یہ سوال اٹھ رہا ہو کہ "کیا ہم واقعی تیار ہیں؟"
نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی خارجہ پالیسی محض ہمسایہ ممالک کو قابو میں رکھنے کے بجائے انہیں سیاسی طور پر تنہا کرنے پر مرکوز رہی ہے۔ نیپال کے ساتھ سرحدی تنازع، سری لنکا میں چینی سرمایہ کاری پر مخالفت، بنگلہ دیش کے ساتھ پانی کے تنازعات، اور پاکستان کے ساتھ مسلسل کشیدگی—یہ سب اس ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ بھارت خود کو پورے خطے کا حکمران سمجھتا ہے۔ امریکہ، فرانس، اور اسرائیل جیسے ممالک سے دفاعی معاہدات اور سرمایہ کاری کے وعدے اسی مقصد کے تحت کیے گئے کہ دنیا بھارت کو نہ صرف خطے کی بلکہ عالمی سطح پر ابھرتی طاقت کے طور پر قبول کرے۔ مگر یہ تاثر جس قدر باہر مضبوط نظر آتا ہے، اندر سے اتنا ہی کھوکھلا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ اکھنڈ بھارت جیسے خوابوں کے مقابل ایک مضبوط نظریاتی اور دفاعی مؤقف اپنایا۔ ایٹمی صلاحیت، میزائل ٹیکنالوجی، اور جدید ترین جنگی مشقوں نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان دفاعی لحاظ سے نہ کمزور ہے نہ غافل۔ یہ صلاحیتیں محض عسکری طاقت نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہیں: "ہم پر حملہ ہوا تو جواب کی شدت تمہاری یادداشت کا حصہ بن جائے گی۔" یہی وجہ ہے کہ بھارت اگرچہ کئی بار اشتعال انگیزی کی حدوں کو چھو چکا ہے، مگر مکمل جنگ کی طرف قدم بڑھانے سے جھجکتا رہا ہے۔ اس جھجک کے پیچھے صرف ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی اجتماعی مزاحمت کا وہ شعور ہے جو ہر بحران میں یکجان ہو جاتا ہے۔
مودی حکومت نے جس شدت سے پاکستان کے خلاف بیانیہ اپنایا، اتنی ہی شدت سے پاکستان نے عالمی فورمز پر حقائق کے ساتھ بھارت کا چہرہ بے نقاب کیا۔ چاہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہو یا یورپی یونین کے اجلاس، پاکستانی سفارت کاری نے یہ باور کرایا کہ جنوبی ایشیا میں اصل خطرہ بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسی ہے، نہ کہ پاکستان کی خودمختاری کی حفاظت۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، اور صحافیوں کی زبان بندی—یہ سب اس مکروہ خواب کے خدوخال ہیں جسے اکھنڈ بھارت کہا جا رہا ہے۔
دوسری طرف بھارتی میڈیا نے ایسے ماحول کو جنم دیا جس میں عقل کی جگہ جذبات نے لے لی۔ خبروں کی جگہ شور، تجزیے کی جگہ نعرے، اور حقیقت کی جگہ افواہیں پیش کی جانے لگیں۔ نیوز رومز میں بیٹھے اینکرز نے خود کو فوجی جرنیلوں کے روپ میں دیکھا اور راتوں رات جنگی ماہرین بن بیٹھے۔ مگر جب پاکستانی فوج کی جانب سے نہایت خاموش، باوقار اور فیصلہ کن ردعمل آیا تو بھارتی میڈیا کو اچانک اپنی حدود کا احساس ہونے لگا۔ شور ماند پڑ گیا، اور اب کیمرے کی آنکھیں اپنے ہی وزیراعظم سے سوال پوچھنے لگی ہیں کہ "کیا اکھنڈ بھارت صرف نعرہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی سنجیدہ منصوبہ بھی تھا؟"
جنوبی ایشیا کی جغرافیائی حیثیت خود ایک انتباہ ہے۔ یہاں ہر ملک، ہر قوم، ہر مسلک اور ہر زبان ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ کسی بھی جارحیت کا دائرہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پورا خطہ لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ اگر بھارت نے واقعی اکھنڈ بھارت کے جنون میں جنگ چھیڑی تو اس کے اثرات نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران اور چین تک پہنچیں گے۔ چین، جو پہلے ہی بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں الجھا ہوا ہے، اس موقع کو غنیمت جانے گا۔ ایران، جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے خلاف کھڑا ہے، شاید کسی ایسے اتحاد کا حصہ بنے جو بھارت کے لیے ناقابل برداشت ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا مودی سرکار اتنے بڑے کھیل کے لیے تیار ہے؟ اور کیا بھارتی عوام اکھنڈ بھارت کے نعرے کی قیمت اپنے بچوں کے تابوتوں سے ادا کرنے پر آمادہ ہے؟ پاکستان نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ہے، مگر امن کی خواہش کو کمزوری سمجھنے والا انجام کا ذمہ دار خود ہوتا ہے۔ پاکستان اب نہ صرف ایٹمی طاقت ہے بلکہ ایک نظریاتی ریاست بھی ہے، جس کے لیے اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو دنیا کو بار بار دیا جا رہا ہے: "ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر اگر تم نے جنگ کو دعوت دی تو جواب صرف تمہیں نہیں، تاریخ کو بھی یاد رہے گا۔"
یہ ایک سیاسی شطرنج کا کھیل ہے، جس میں ہر چال کا جواب ممکن ہے، مگر ہر چال کا انجام محفوظ نہیں۔ اب نظریں اس پر مرکوز ہیں کہ مودی سرکار کی اگلی چال کیا ہوگی، اور کیا وہ چال بھی پہلی چالوں کی طرح پاکستان کی سیاسی دانش کے سامنے بکھر جائے گی یا نہیں۔ بھارت نے جو شعلے بھڑکائے ہیں، وہ کب دھوئیں میں بدلیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ مگر ایک بات طے ہے—یہ خطہ اب کسی جنون کی تاب نہیں رکھتا۔
تبصرہ لکھیے