جب یہ کہا جائے کہ دین کو قطعی قرار دینے کے لئے قرآن و سنت میں بند کرنا کوئی معنی خیز بات نہیں، تو کہا جاتا ہے کہ یہ جملہ اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ "دین اپنے ماخذات" کے لحاظ سے قطعیات میں بند ہے نہ کہ ثابت ہونے والے تمام احکام کے لحاظ سے۔
پس اس اعتبار سے مستقل بالذات یعنی اصل یا بنیادی احکام قرآن و سنت کے قطعی الثبوت ماخذ سے ثابت ہیں جبکہ فروعی احکام حدیث سے، لیکن وہ مستقل بالذات و اصل نہیں فرع و تبیین ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اصطلاح بنانے میں کوئی جھگڑا نہیں، سوال یہ ہے کہ اس سے حاصل کیا ہوا؟ ہم آپ کی بات آپ کی اصطلاحات میں یوں کھول دیتے ہیں:
1۔ قطعی الثبوت قرآن میں بعض احکام قطعی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات و اصل ہیں (قطعی الدلالۃ سے ہماری مراد وہ کیفیت ہے جس میں اختلاف سے عقاب لازم آئے، چاہے مؤبد ہو یا مؤقت)
2۔ قطعی الثبوت قرآن میں بعض احکام قطعی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات نہیں بلکہ بعض قرآنی احکام کی فرع و تبیین ہیں
3۔ قطعی الثبوت قرآن میں بعض احکام ظنی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات ہیں
4۔ قطعی الثبوت قرآن میں بعض احکام ظنی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات نہیں بلکہ بعض قرآنی احکام کی فرع و تبیین ہیں
اسی طرز پر آپ کے اصول کے مطابق کہا جائے گا:
5۔ ظنی الثبوت احادیث میں بعض احکام قطعی یا ظنی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات نہیں بلکہ بعض قرآنی احکام کی فرع و تبیین ہیں
بتائیے 4 اور 5 میں عمل کے لحاظ سے کیا فرق ہے جبکہ آپ خود مانتے ہیں کہ قرآن کی آیت فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا کی رو سے پانچویں قسم بھی واجب الاتباع ہے نیز آپ 4 اور 5 دونوں کو وحی بھی مانتے ہیں؟
جس طرح یہ کہا جائے گا کہ مستقل بالذات دین سے متعلق قرآن سے ثابت ہونے والی بعض فروعات و تبیین جاننے کا ماخذ قرآن ہے، اسی طرح یہ بھی کہا جائے گا کہ دین سے متعلق بعض فروعات کو جاننے کا ماخذ حدیث ہے۔ اس پر آپ کا انتہائی اعتراض یہ ہوگا کہ قرآن کا انکار اور اس کا حکم نہ ماننا کفر ہے جبکہ حدیث کا ایسا معاملہ نہیں اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ تیسری اور چوتھی قسم میں "قرآن کا انکار اور اس کا حکم نہ ماننا کفر ہے" سے آپ نے کیا مراد لی، قرآن کے الفاظ یا مجتہد کے نزدیک اس سے ثابت ہونے والا معین معنی یا حکم؟
اگر الفاظ مراد لی تو فبھا، سب یہی کہتے ہیں۔
لیکن اگر ظنی الدلالۃ طور پر ثابت ہونے والا معین حکم مراد لیا تو کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ ہر ہر آیت سے آپ نے جو سمجھا اسے نہ ماننے والا کافر ہے؟ ظاہر ہے یہ تو آب بھی نہیں کہتے۔ ایسے میں آپ کے اعتراض کا حاصل کیا رہا؟ پس تیسری و چوتھی قسم میں پوری بحث کا حاصل یہ ہوا کہ جو مفہوم سمجھ کر آپ نے حکم ثابت کیا اس پر آپ کے نزدیک عمل واجب ہے اور بس، لیکن اس حکم میں آپ سے علمی (یعنی عقیدے کے اعتبار سے) اختلاف کرنے والا کافر و فاسق نہیں۔ یہی کچھ خبر واحد کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے، سمپل۔ تو اس جملے میں جس فرق کو بہت بڑا بنا کر پیش کیا جاتا ہے، چند قدم چلنے کے بعد وہ اتنا بڑا نہیں رہتا۔
الغرض ماخذ کے اعتبار سے بحث محض اصطلاح سازی کی چیز معلوم ہوتی ہے جس کا کوئی خاص علمی و عملی فائدہ ہمیں معلوم نہیں ہوسکا، البتہ اسے بنیاد بنا کر کہے جانے والے جملے "دین قرآن و سنت میں ہے، حدیث تاریخ کی کتاب ہے نہ کہ دین کی" سے کنفیوژن ضرور پیدا ہوتی ہے۔ علمی طور پر نتیجہ ایک ہی ہے کہ جس طرح قرآن متعدد ظنی طور پر ثابت دینی احکام کا ماخذ ہے، حدیث بھی ہے۔ آپ کی یہ تقسیم تب معنی خیز ہے جب آپ مثلا خوارج وغیرہ جیسا یہ منہج اپنا لیں کہ قرآن کی ہر ہر آیت کے بارے میں جو بھی آپ کے فہم سے اختلاف کرے وہ کافر یا چلیں کم از کم بدعتی و فاسق ہے۔
اس کے بعد اگرچہ یہ سوال یقیناً ختم ہوجائے گا کہ "دین کا حکم یہ ہے یا وہ" لیکن اس کے ساتھ تکفیر و تبدیع کا جو سیلاب آئے گا وہ اہل علم پر مخفی نہیں اور نتیجہ پھر بھی وہی نکلے گا کہ ہر گروہ کے پاس دین کے اپنے الگ احکام کی ایک لسٹ ہوگی!
تبصرہ لکھیے