ہوم << "درد وچھوڑے دا"- ڈاکٹر بشری تسنیم

"درد وچھوڑے دا"- ڈاکٹر بشری تسنیم

میرے اور میری ماں کے درمیان انتظار کا رشتہ تھا۔ وہ انتظار جو محبت کی آگ کو مزید بھڑکادیتا ہے۔ دروازے کے پٹ سے لگی میرا انتظار کرتی میری پیاری ماں!۔

میری یادداشت میں ماں کی منتظر نگاہوں کا پہلاتاثر بہت پرانا ہے۔ہماری ایک رشتہ دار خاتون’’روشنی مرحومہ‘‘ کی بہت سی اولادیں فوت ہوئیں۔ ان میں فوت شدہ ایک بیٹی میری ہم عمر تھی۔وہ مجھے اپنے گھر لے جاتیں۔اس دن بھی وہ میری انگلی پکڑے گلی میں نکلیں تو میری ماں دروازے کی اوٹ سے مجھے جاتا دیکھ رہی تھیں۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ منتظر نگاہیں…’’بیٹی کب آئو گی؟‘‘…’’جلدی آجانا۔‘‘

پھر یہ سوال کرتی نگاہیں میری ساری زندگی پر محیط ہو گئیں میرا سکول کا پہلا دن، میری ماں دروازے کا پٹ پکڑے مجھے رخصت کررہی تھی… محبت بھرا وہ شفیق چہرہ ،ویسے ہی گلی میں نگاہیں جمائے ملا جب میں واپس آئی۔مجھے لگا… صبح سے میری ماں اسی طرح پٹ پکڑے میرے انتظار میں کھڑی تھی۔جُوں جُوں اس دنیا سے ان کے رخصت ہونے کا عرصہ طویل ہورہا ہے، ان کی محبت بھرے انتظار کا احساس بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ ہر اولاد سے والہانہ پیار ماں کا خاصہ ہے۔ مگر جو بچہ جدائی اور دور ہونے کے احساس سے منسلک ہو، اس کے ساتھ انداز محبت بھی جدا ہو جاتا ہے۔

مڈل سکول کے بعد تعلیم کے سلسلہ میں پہلے بہاول پور، پھر لاہور اور فیصل آباد رخصت کرنا…اور ان سب سے رخصت ہونا میرے لئے ایک آزمائش کا وقت ہوتا تھا۔اور یہ آزمائش ہر چار چھ مہینے بعد ضرور آجاتی تھی۔ اور آج تک قائم ہے اور پھر میرے خط کے انتظار میں…ڈاکیے کے آنے کا وقت… خط مجھے روانہ کرتیں، اندازہ لگاتیں کہ کتنے دنوں میں پہنچے گا؟ اور اندازاً کتنے دنوں میں جواب آجانا چاہیے۔ اور پھر وہی ان کامنتظر نگاہوں سے بیٹھک کے جالی والے دروازے سے لگ جانا۔…ڈاکئے کے انتظار میں…۔

میکہ سے رخصتی…اورپاکستان سے رخصتی میرے کراچی جانے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر جو حالت میری ماں کی تھی، وہ مجھے یاد آتی ہے تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر میرے وجود کو محسوس کررہی تھیں، میں سخت ہراساں ہوئی جارہی تھی۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی میں کیا کروں۔ ضبط گریہ ہے کہ میرا دل پھٹنے کو تھا۔ میرا رونا دیکھ کر ان کی حالت مزید خراب ہو جاتی۔اس وقت مجھے ان کے جذبات کا ادراک اس طرح نہ ہوا … مگر جب میں نے اپنی بیٹی کو پردیس روانہ کیا تو مجھے لگا کہ میری ماں میرے اندر سماگئی ہے اور میں ان کی تڑپ کو محسوس کررہی ہوں۔ انسان کی سرشت ہے کہ جب تک وہ اسی مقام پہ نہ آجائے، اس کی فہم اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ایک بار چھٹیوں کے بعد لاہور جاتے ہوئے وادعی کے وقت میں رونے لگی…توخط لکھاجب تک تم واپس نہیں آتی ،مجھے تمہارا روتا چہرہ ہی نظر آتا رہے گا…اور میں نے اس کے بعد رخصتی کے وقت ضبط گریہ کی مشق کرلی۔ مگر یہ بہت ہی سخت آزمائش ہے۔ جو اپنوں سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے آج بھی میرے مقدر میں ہے۔

ریلوے اسٹیشن پہ جب تک گاڑی کے انتظار میں بیٹھے رہے۔وہ میرے وجود کے لمس کو محسوس کرتی رہیں۔ کبھی ہاتھ دباتیں۔ چہرے پر ہاتھ پھیرتیں، میرا ہاتھ اپنی قمیض کے اندر سینے پر رکھ کر محسوس کرتیں، ماتھا چومتیں، جانے ان کے دل میں کیا خدشات ابھر رہے ہوں گے۔ جانے کب ملنا ہو؟… آنکھوں میں مکہ، مدینہ جانے تقاخر اور جدائی کا نوحہ مل جل کر کیا کچھ نہیں پیش کررہے تھے، کوئی الفاظ نہیں ہیں … کوئی جملہ نہیں ہے جو اس جذبے کو نام دے سکے۔ وہ لمحے مجھے اب وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ شدت سے محسوس ہونے لگے ہیں۔ باہم رابطے کی آج کے دنوں کی مانند آسانیاںایجاد نہ ہوئی تھیں۔ایک خط پندرہ دن میں پہنچتا پھر پندرہ دن جو اب آنے میں لگتے اس طرح چالیس دنوں کا اندازہ لگا کر بے قرار نگاہیں دروازے پر ٹک جاتیں اور کان ڈاکئے کی آوازکے لئے جم جاتے۔اس دن جب ریل گاڑی میں بیٹھ گئی تو ساتھ بیٹھی رہیں۔ کندھوں پر دست شفقت پھیرتی دعائیں دیتی میری اس وقت تک بھی مجھے ان کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہورہا ہے۔گاڑی کی وسل ہوئی تو نیچے اتر آئیں مگر کھڑکی کے پاس آکر میرے ہاتھ کو پکڑا اور ہونٹوں پر لگایا اور آنکھوں میں وہی انداز… جس کا کوئی نام نہیں۔ میر یخواہش ہوئی کہ میں کھڑکی سے باہر کود جائوں… گاڑی چل پڑی اور میری ماں ریلوے اسٹیشن کے فٹ پاتھ پر کھڑی رہی گئی … ان کی منتظر نگاہیں میرے دل میںپیوست ہو گئیں۔ ’’بیٹی کب ملو گی؟‘‘ ’’جلدی آنا‘‘۔میں کہیں بھی جاتی ’’جلدی آنا‘‘ کہنا نہ بھولتیں۔وہ سب یاد کرکے اور اب لکھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونا آسان ہے گزرتے وقت کے ان لمحوں کو گرفت میں لانا مشکل ہے… بلکہ ناممکن ہے۔جب تک میرا نیا خط نہ آجاتا، پرانے خط کو ہی بار بار پڑھتی رہتیں۔سب کو پڑھواتیں۔ان کا دل چاہتا تھاکہ سب وہی کچھ محسوس کریں جو وہ اپنی بیٹی کے لئے محسوس کرتی ہیں۔

جب نواسی کو رخصت کرنے ایئر پورٹ گئیں تو اس کی جدائی کو محسوس کرنے کا انداز بھی میری محبت اور میرا اپنی یٹی سے احساس جدائی سے جڑا ہوا تھا…کہنے لگیں ’’مجھے معلوم ہے آج تم کیا محسوس کررہی ہو‘‘… اور میرے احساس کا احساس ان کو رُلانے لگا۔

میری بیٹی کو رخصت کرتے وقت نصیحت کی’’اگر تمہیں کوئی پریشانی ہوتو اپنی ماں کو نہ بتانا اس کو تکلیف ہوگی… نانی کو بتانا یہ بات بیٹی نے بعد میں بتائی میری تکلیف کا اس قدر احساس تھا ان کو… بھلا اس محبت شفقت کا کوئی جواب یا صلہ ہوسکتا ہے؟وہ میری پیاری ماں کے انمول جذبے…آہ!! اتنی بڑی کائنات میں کوئی ان جیسا نہیں ہے۔ یہ دنیا کتنی خالی ہو گئی ہے۔میرے دل کی طرح اور کبھی لگتا ہے کہ کائنات میں یادیں ہی یادیں سمائی ہوئی ہیں… میری ماں کی یادیں جیسے میرے دل میں… ہم کوشش بھی کریں تو اپنی اولادوں کے لئے ایسی ماں نہیں بن سکتے۔

میرے سارے خط سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ترتیب وار میری استعمال شدہ ہر چیز سنبھال کر رکھتیں۔میں اپنا کوئی جوڑا رکھ جاتی تو اس کو دیکھ دیکھ کر خوشی ہوتی رہتیں۔نیا سوٹ لے کر خوش نہ ہوتیں۔ استعمال شدہ لے کر کہیں’’اس میں سے تمہاری خوشبو آتی ہے لگتا ہے تم سینے سے لگی ہوئی ہو‘‘۔

میری تحریروں کے شائع ہونے پر بے انتہا خوش ہوتیں اور جب کوئی پڑھ کر تعریف کرتا تو مزید خوش ہوتیں۔ بچپن میں بھی انعام دیتیں۔ ابھی گزشتہ دنوں چھوٹی بہن عیشہ راضیہ نے مجھے فون کیا ’’باجی امی آپ کو انعام دیا کرتی تھیں۔اب میں آپ کو انعام دوں گی۔‘‘تو مجھے اتنا لطف آیا اس کی با ت سن کر امی جان کے لئے اور عیشہ کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بننے پر بہت دعائیں کیں۔امی کی شباہت عیشہ میں نمایاں ہوتی جارہی ہے میری اس سے محبت بھی بڑھتی جارہی ہے ہم خیال کرتے ہیں کہ والدین خصوصاً ماں کے لئے بھی ہم محبت کا جذبہ رکھتے ہیں اور بھلا براجو کچھ بھی کرتے ہیں۔بس کافی ہے۔ مگران کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ادراک ہوتا ہے کہ ہم نے سوائے حسرتوں کے کچھ نہیں پایا…خالی ہاتھ اور خالی دامن… ماں کی محبت کا نہ کوئی بدل ہے نہ بدلہ … اپنی ڈائری میںجہاں کہیں میرا یا کسی بھی اولاد کا نام لکھا یاکوئی ذ کر کیا ہے تو ساتھ بریکٹ میں (اللہ حافظ وناصر) ضرور لکھا ہے اور یہ کہ بڑی بیٹی تو سہیلی کی طرح ہوتی ہے۔ سال بھر انتظار کے بعد سعودیہ سے آتا ہوتا تو جہانیاں میں گزارنے کے لئے چند دن ہی نصیب ہوتے۔جب بھی ماں کے گھر سے رخصت ہوتی تو میری کوشش ہوتی کہ دروازے سے نکلوں توجلدی سے نظرو ں سے اوجھل ہو جائوں تاکہ وقت رخصتی کا ضبط گریہ زیادہ آزمائش سے نہ گزرے۔میری ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ دائیں طرف سے جایا کروں۔ادھر سے گلی کا راستہ لمبا ہے’’ میں زیادہ دیر تک تمہیں دیکھ سکتی ہوں‘‘۔…دونوں طرف ایک ہی جذبہ ہے لیکن اظہار کا طریقہ مختلف ہے۔ دنیا کی ہر ماں اپنی ذات پہ تکالیف جسمانی ہوں یا قلبی برداشت کرلیتی ہے۔ یہ وہ حصار ہے جس سے ہر اولاد فائدہ اٹھاتی ہے۔ اپنوں،غیروں کی طرف سے چلائے ہوئے حسد،رقابت کے تیر، مٹی ، دھول، کیچڑے کے چھینٹے مائیں کتنی سہولت سے اپنے اوپربرداشت کرتی ہیں۔ اولاد اوراولادوں کو ان کی خبر بھی نہیں ہونے دییں۔زمانہ گزرنے کے ساتھ جب حالات خود ہی اس کو آشکار کردیں تو اولاد دم بخود رہ جاتی ہے۔

ہر ماں عظیم، اور ہر بیٹی کی ماں عظیم تر ہے۔ماں کو بیٹی میں اپنا وجود پھلتا پھولتا نظر آتا ہے اور اپنی بیٹی کو ماں کی صورت میں ایک آسرا نظر آتا ہے۔ زندگی کی مشکلات میں ہاتھ پکڑنے والی اس ہی جیسی ایک اور ہستی۔ جس کے وجود کا خود حصہ ہے۔ اپنے وجود کا حصہ پاس نہ ہوتو ماں کی کیفیت ناقبال بیان ہے۔ جب تک میں ’’بیٹی‘‘ رہی۔ میں اپنی جدائی کے احساس کو’’بیٹی‘‘ بن کر ہی سوچتی رہی۔ ماں سے جدا ہونا۔ یہ غم مجھے لگتا بس میں ہی محسوس کرسکتی ہوں۔جب بیٹی کو رخصت کرکے’’ماں‘‘ بنی تو میرے اندر دو جدائیوں کے غم پرورش پانے لگے۔ …’’ہائے!میری ماں نے میری جدائی کیسے برداشت کی ہوگی۔ وہ تو مجھ سے بہت محبت نہیں عشق کرتی تھیں’’وہ تو میری جدائی کا غم اور انتظار کے کرب میں اس وقت سے مبتلا تھیں جب میں چودہ سال کی تھی۔

مجھے سعودیہ آئے ایک سال ہوا تو حج کی سعادت حاصل کرنے آئیں۔ ان دنوں ابھی ہمارے کمپنی کے حالات سیٹ نہ ہوئے تھے۔بہت آزردہ ہوئیں۔پھر میں بیمار پڑ گئی۔میں نے کیا ان کی خدمت کرنا تھی۔ وہی میری تیمارداری اور گھر اور بچی کو سنبھالنے میں لگی رہتیں۔

حرم شریف میں ہر جگہ، ہر لمحہ دعا کرتیں۔ کسی کو بہت خشوع وخضوع سے دعا کرتے یا گریہ کرکے دعامیں مصروف دیکھتیں تو اسے کہتیں’’میری بیٹی کی صحت کے لئے دعا کردیں‘‘ مجھے ساتھ لے جائیں اور بتائیں اس کے لئے دعا کریں‘‘ ان کی دعاؤں کے طفیل چند ہی دنوں بعد اللہ تعالیٰ نے سب حالات بہتر کردیئے۔کمپنی کی طرف سے ہر آسائش اور صحت بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کردی۔ حج کے ان دنوں کی ڈائری کے ہر ورق پہ’’میرے لئے دعا درج ہے۔‘‘ بچپن میں ایک بار ہم تینوں بڑے بہن بھائی بیمارہو گئے۔پرانی ڈائری میں ان دنوں کے بارے اباجان نے لکھا ہوا ہے’’ یہ عام الحزن ہے میرے بچے بیمار ہیں‘‘۔

جیسا میں محسوس کرتی ہوں۔میرے سب بہن بھائی یقینا ایسی ہی محبت کا احساس دلوں میں رکھتے ہیں۔ میرے توسط سے ان سب کے دلوں کا حال بھی اجاگر ہورہا ہے۔ ہر بچہ والدین کے لئے خاص ہوتا ہے اور اپنی کسی نہ کسی خوبی کی بنا پر وہ ’’اکلوتا‘‘ ہی ہوتا ہے۔ حج کرنے آئیں تو ہر بچے کا تذکرہ بھی پوری تفصیل سے کرتی رہیں۔چھوٹی بچی جوکہ گود میں تھی۔ بڑی بیٹیاں، بیٹا، دعا کا خاص انداز۔ ہر مقام پہ کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی نہ کوئی مناسبت نکل آتی۔ سب کو اپنی محبتوں کے حصار میں رکھتی تھیں۔ اپنی ماں کے ساتھ آخری دنوں کی ملاقات،بس تین دن کا ساتھ…سال بعد نصیب ہوا…وفات سے ایک دن پہلے ناشتہ کرنے کے بعد کہنے لگیں۔

’’تم پردیسن کے ہاتھ کی روٹی میں پوری کھالی ہے‘‘… محبت کاایک اچھوتا سا احساس ان کے لہجے میں نمایاں تھا میں سوچتی ہی بھائی کی شادی کاہنگامہ ختم ہوگا تو بہت ساری باتیں کرنا ہیں۔

بیٹے واصف کے نکاح کے بعد بھی ہماری پہلی ملاقات تھی۔ کہنے لگیں
’’میں نے کسی کا واقعہ پڑھا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا نکاح مسجد نبوی میں کیا تھا۔میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میرے بھی کسی بچے کا نکاح اس مقدس بابرکت مقام پہ ہو‘‘واصف کا نکاح وہاں ہوا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اس نے میری خواہش پوری کردی‘‘۔

اگلے دن میری ماں کو دنیا سے منہ موڑنے کا حکم دیا گیا اور انہوں نے سراطاعت سرجھکادیا۔ میری گود میں ان کاوجود تھا۔میرے سینے سے ٹیکے لگائے میری ماں چپکے سے چلی گئی…اتنی خاموشی سے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نام کو بھی نہ تھا پھر بھی میں نے ان کے جانے کی آہٹ تک نہ سنی۔ چند سیکنڈ پہلے منہ میں دوا ڈالی تو خود منہ کھولا…چمچے سے لگئی باقی دواکو دیکھا تو دوبارہ منہ کھولا۔ایک چمچہ منہ میں پانی ڈالا…اور پھر میرے بازو پہ سررکھ دیا۔اور یہی واپسی کالمحہ تھا۔میں نے محسوس کیا دل کی دھڑکن جو مجھے محسوس ہورہی تھی اب ایک دم ختم ہوگئی ہے جیسے کوئی سوئچ آف کر دے … میں نے پائنتی پہ بیٹھی حمیرایاسمین کو احساس دلایا کہ ’’دل کی دھڑکن نہیں ہے۔‘‘ اور اس دھڑکن کا رکنا ہی ان کی زندگی کے دوسرے مقام پہ منتقل ہونا تھا۔(انا للّٰہ واناالیہ راجعون) انسان کو کیا معلوم کہ ان کے درمیان فرشتہ اجل موجود ہے۔زندگی کی گہما گہمی سے کس طرح ایک جیتا جاگتا انسان بے نیاز کردیا جاتا ہے۔زندگی کی گاڑی کو ایک دھچکا لگا۔پھر وہ رواں دواں ہو جاتی ہے۔ لیکن جو مسافر اترجاتا ہے اس کی سنگت اور اس سے وابستہ رشتہ مسافروں کے دلوں سے محو نہیں ہوتا…زندگی کی ریل گاڑی میں ہر مسافر اپنی منزل آنے پر اتر جاتا ہے۔ ہاتھ پکڑ کر فرشتہ اجل اسے اتار دیتا ہے۔ہر مسافر اس مگن اور دھن میں لگا ہوا ہوتا ہے کہ ابھی میری باری نہیں آئے گی لیکن کس کی باری کب آنی ہے ہر مسافر اس سے بے خبر ہے۔

ماں اپنی بیٹیوں کو رخصت کرکے ان کی گڑیاں،کھلونے،کتابیں دیکھ کر دل بہلاتی ہے اور ان کی آسودگی کے لئے دعا گو رہتی ہیں۔ہم بیٹیوں نے ماں کو رخصت کیا تو ہم سب کے پاس یادیں ہی یادیں تھیں۔ہر بیٹی کا انداز غم جدا تھا۔ جیسا کہ ماں کی محبت کا ہر بیٹی کے ساتھ انداز محبت جدا تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے میں ماں کی کوئی نہ کوئی نسبت تلاش کرکے ماں کی کمی پوری کرنے میں کوشاں ہے۔ اللہ رب العزت نے ماں کا نعم البدل کسی کو نہیں بتایا لیکن بہنیں ماں کا عکس ہوتی ہیں۔اسی وجود کا حصہ… کیسی زنجیریں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں جکڑی ہوئی ہیں اور انہی زنجیروں نے احساسات وجذبات کو منتقل کرنے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔

ماں کی رخصتی کے بعد ان کی سنبھالی ہوئی یادگار خاص اشیاء، خط، ڈائریاں وغیرہ دیکھ رہے تھے تو حمیرا یاسمین نے مجھے ایک چھوٹی سی چیز پکڑائی جوکاغذ میں لپٹی ہوئی تھی… جس کو دیکھ کر دل رنجور نے ایک آہ بھری… اور اپنی ماں کی محبت کے انمول ہونے کی مزید تصدیق کی… وہ بھلا کیاتھا؟…چند بال جیسے برش یا کنگھی سے نکالے ہوئے ہوں اور اوپر چپ لپٹی ہوئی تھی۔چٹ پر ’’بشریٰ کے بال‘‘ لکھا تھا۔ گھر سے جس کو رخصت کرتیں اس کی آخری استعمال شدہ چیز سنبھال رکھتیں۔ گزشتہ برس میرے پاکستان سے رخصت ہوتے ہوئے آخری وقت کی تازہ ترین نشانی سنبھال رکھی تھی۔’’میرے مولا! میری ماں کو اسی رحمت واسعہ سے نوازیئے جس کا حوالہ آپ نے ماں کی مثال دے دے کرسمجھایا ہے ہمیں‘‘۔

کہنے کو ان گنت واقعات ہیں۔احساس دلانے کو بے شمارجذبے ہیں۔ مگر ایک بات سب باتوں کو جلا بخشتی ہے…وہ ’’میری ماں‘‘ تھی… راتوں کی تنہائیوں میں میرے لئے آنسو بہانے والی۔ دن کے اُجالوں میں میرا انتظار کرنے والی۔شام کے نیم اندھیرے میں میری عافیت کی دعاکرنے والی، اور لمبی دوپہروںمیں میرے خط پڑھ کر وقت بتانے والی،میری ہر بات پر توجہ دینے والی، میرے ہر لفظ کو غورسے پڑھنے والی…دل میں بسنے والی اور اپنے دل میں مجھے بسانے والی… وہ پیاری ہستی جس کے ساتھ میرا انتظار کا رشتہ ہے، وہ انتظار کرب جومحبت کی جوت جگائے رکھتا ہے۔

ہر گزرنے والا دن مجھے تسلی دیتا ہے کہ انتظارکی گھڑیاں کم ہو گئی ہیں ملن کا سمے قریب آتا جارہا ہے۔مجھے خوابوں میں کوئی دنیا سے جانے والا نظر نہیں آتا… بڑی منت سماجت کے بعد ایک دن میری ماں ملنے آئی۔ خوبصورت ،جوان، نوعمرلڑکیوں کی سرمتی اور بانکپن لئے اپنے ہاتھوں کو مہندی سے سجا رہی ہیں۔ خوش اور مطمئن۔

اپنی خوش اور مطمئن ماں کا چہرہ مجھے اندر تک سکون دیتا ہے…اور ہر لمحہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ شفیق چہرہ جنت کے کسی دروازے کے پٹ سے لگا منتظر نگاہوں سے پوچھ رہا ہے۔
’’بیٹی! کب ملوگی؟کب آئوگی‘‘؟’’جلدی آجانا

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر بشری تسنیم

ڈاکٹر بشری تسنیم کی پہلی کہانی نو سال کی عمر میں بچوں کے رسالہ "نور" میں شائع ہوئی۔ گریجویشن میں صحافت بطور مضمون پڑھا۔ اردو ڈائجسٹ، ترجمان القرآن، بتول، ایشیا، جنگ، نوائے وقت، جسارت اور دیگر رسائل و اخبارات میں مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ماہنامہ بتول میں بارہ سال سے مستقل کالم "گوشہ تسنیم" شائع ہو رہا ہے۔ تیرہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ "پانیوں پہ سفر" کے نام سے یورپ کا سفرنامہ قسط وار بتول میں شائع ہو رہا ہے۔ برمنگھم ایف ایم ریڈیو سے لیکچرز نشر ہوتے ہیں۔

Click here to post a comment