سوشل میڈیا ماہرین ارضیات، ماہرین موسمیات نے روزانہ کئی زلزلوں، خوفناک اندھی، بارش کا الرٹ جاری کر کے متعد افراد کو ذہنی مریض بنا دیا؛ حالانکہ ان کی ایک کہانی بھی مصدقہ نہیں ہوتی۔ پاکستان، جو جغرافیائی طور پر زلزلوں کے حساس خطے میں واقع ہے، میں وقتاً فوقتاً زلزلے سے متعلق افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے جس نے عوام کو شدید ذہنی کرب سے دوچار کیا ہوا ہے۔
سوشل میڈیا ماہر ارضیات نومبر 2023میں بھی ایسے زلزلوں کی خبریں دیتے رہیں، ان کے بقول خوفناک تو کیا کوئی ہلکا زلزلہ بھی نہ آیا جو ان کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ زلزلے کسی کی مرضی سے نہیں آتے۔ژالہ باری، وبائی امراض، اندھیاں، موسم کی شدت، یہ قدرت کی طرف سے پیغام ہیں کہ وہ اعمال چھوڑ دیں جو ان مصائب کو لا رہے ہیں، ہم نے ان کا حل سوشل میڈیا پر ڈھونڈنا شروع کر لیا، جو یقینا ناکامی ہے۔ہمارے پاس زلزلوں کو ٹلنے کا حل بہت پہلے سے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:”وہ استغفار کرنے والے کو عذاب نہیں دیتے، کیونکہ استغفار اس گناہ کو مٹا دیتا ہے جو عذاب کا سبب بنتا ہے، اور یوں عذاب ٹل جاتا ہے۔“ اللہ سے مغفرت طلب کرو، بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”وہ انسان خسارے کا شکارہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ اسے معاف نہیں کرے گا۔“
ماہر ارضیات کے مطابق سائنسی طور پر، آج تک کوئی ایسی ٹیکنالوجی یا طریقہ کار ایجاد نہیں ہوا جو زلزلے کے آنے کی صحیح تاریخ، وقت یا شدت کی درست پیشگوئی کر سکے۔ زلزلے زمین کی اندرونی پرتوں میں توانائی کے اچانک اخراج کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور یہ ایک قدرتی عمل ہے جسے روکا نہیں جا سکتا؛ البتہ، ماہرینِ ارضیات زلزلہ کے خطرے والے علاقوں (Seismic Zones) اور فالٹ لائنز کی نشاندہی کر سکتے ہیں، لیکن یہ صرف احتمالی خطرے کا اندازہ ہوتا ہے، نہ کہ کوئی یقینی پیشگوئی۔
کائنات کا سارا نظام ہی لہروں سے چل رہا ہے۔ہر ستارے اور سیارے کی حرکت سے جوارتعاش پیدا ہورہا ہے اس کے اثرات ہماری زمین اور دوسرے سیاروں پر بھی پڑتے ہیں اب سائنس ان بنیادوں پر کام کر رہی ہے کہ جس کا قرآن پاک میں بھی ذکر ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ میں عبور حاصل کر نا غیر مسلموں کا اثاثہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی میراث بھی ہے اور فرض بھی‘ اسلام کے وہ بنیادی تصورات اور تعلیم جس سے تقریباً ہر مسلمان واقف ہے۔ جدید ریسرچ پر ہی زور دیتے ہیں۔ہماری کہکشاں گلیکسی وے میں سورج جیسے اربوں ستارے ہیں ان کے اپنے نظام شمسی ہیں۔ سورج سے ہزاروں گُنا بڑے ستارے بھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ ہماری کہکشاں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گُنا بڑی کئی کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کائنات میں کھربوں میل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔سب سے پہلے انسان نے اپنی بنیادی ضروریات پر توجہ دی۔ دھاتوں کو اپنے استعمال میں لایا پھر آہستہ آہستہ سائنسی ایجادات کی دُنیا میں داخل ہوا اب ہر لمحہ نِت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، مگر یہ سارا علِم وہ ہے کہ جو آدم کو اللہ کا نائب ڈکلیئر کرنے سے پہلے ہی عطا کر دیا گیا تھا۔
19 جون 2006 ء کو اس گلوبل سیڈ والٹ کا سنگِ بنیاد ناروے‘ سویڈن، فن لینڈ‘ ڈنمارک اور آئی لینڈ کے وزرائے اعظم نے رکھا تھا اور 26 فروری 2008 ء کو اسے مکمل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دُنیا میں 60 لاکھ مختلف اقسام کے بیج مختلف ملکوں کے جینز بینکوں میں محفوظ ہیں لیکن یہ تمام بینک قدرتی آفات اور نیوکلیئر جیسے خطرات محفوظ نہیں جس کے باعث ان کی بقا یقینی نہیں۔ان خطرات کے پیش نظر سائنس دانوں کی ایک کمیٹی اس بات پر متفق ہوئی ہے کہ ہمیں اس بنیادی ضرورت کی حفاظت اور بقا کے لئے ”کرہ ارض پر بدترین صورتِ حال“ کو ذہن میں رکھتے ہوئے جس میں کوئی بہت بڑی قدرتی آفت کی وجہ سے یا نیوکلیئر وار کی وجہ سے کسی ملک یا خطے کی زمینی پیداواری صلاحیت کا یکسر ختم ہوجانا کوئی خاص بیج کی نسل کا دُنیا سے یکسر ختم ہوجانا جیسے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتہائی جدید اور محفوظ انتظام کرنا ہوگا۔
امریکہ‘ یورپ‘ ایشیا ء ٗ پاکستان ٗ کشمیر سمیت پوری دُنیا میں ہولناک طوفان اور زلزلے آبھی چکے ہیں۔ ایک سائنسی نقطہ نظر تو دوسری حقیقت یہ ہے کہ:قرآن میں اللہ فرماتے ہیں: ”زمین اور آسمان میں جو فساد ظاہر ہوتا ہے اس کا سبب انسانوں کے اپنے اعمال ہی ہیں۔“ انسان جیسے اعمال کرتا ہے ویسے ہی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسے حوادث کے ذریعے اللہ تنبیہ کرتے ہیں کہ توبہ اور رجوع کریں۔ آپ ﷺکے زمانے میں زمین ہلنے لگی تو آپ نے زمین پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ”ٹھہر جا! ابھی قیامت کا وقت نہیں آیا۔“ اور پھر آپ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ”اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور معافی مانگو۔“
زلزلے سوشل میڈیا ماہرین ارضیات کی وارننگ سے ٹلا نہیں کرتے۔افواہیں پھیلانے والے اکثر بے چینی اور خوف کو ہوا دیتے ہیں، جس کا مقصد صرف توجہ حاصل کرنا یا سوشل میڈیا پر ٹریفک بڑھانا ہوتا ہے۔ اس طرح کی بے بنیاد خبریں عوام میں غیر ضروری خوف و ہراس پھیلاتی ہیں۔ معاشرے میں الجھن اور بے اعتمادی کو جنم دیتی ہیں۔ ہنگامی خدمات (جیسے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اداروں) کا وقت اور وسائل ضائع کرتی ہیں۔
زلزلے ایک قدرتی مظہر ہیں، جن سے مکمل بچاؤ ممکن نہیں، لیکن احتیاطی تدابیراپنا کر نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:
افواہوں پر یقین کرنے کے بجائے مستند اداروں (جیسے پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ یا NDMA) کی معلومات پر اعتماد کریں۔
زلزلہ سے بچاؤ کے لیے تعمیراتی معیارات (Building Codes) پر عمل کریں، خاص طور پر زلزلہ زون میں مضبوط عمارتیں تعمیر کریں۔
عوامی آگاہی بڑھائیں اور سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ خبریں شیئر کرنے سے گریز کریں۔سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ اپنے دستور قرآن میں ان کا حل تلاش کیا جائے، بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہیے۔
بے شک سائنس نے ترقی کر لی پھر بھی آفات کا حل نہیں ٗ اسلام نے حل بھی بتا دیا کہ یہ قدرتی آفات تمہیں تمہارے رب کی طرف سے آزمائش ٗ اظہار ِ ناراضگی ہے۔ مصائب‘ آزمائشیں انسانوں کے اعمال کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں‘ یہ سوشل میڈیا نہیں بلکہ اپنے اعمال کے احتساب سے حل ہو سکیں گے۔اللہ کریں دُنیا کا ہر انسان زلزلوں سے محفوظ رہے!! آمین
تبصرہ لکھیے