فلسطین اسرائیل تنازعہ سو سال پرانا ہے۔ 1897 میں آسٹریا کے تھیوڈور ہرتزل نے صیہونی تحریک کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنا تھا۔لیکن سلطان عبدالحمید دوم نے ان کے منصوبے کو مسترد کر دیا اور فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری پر پابندی لگا دی۔ہٹلر نے ہولوکاسٹ میں ساٹھ لاکھ یہودی مارے تو وہ یورپ سے بھاگے مگر امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے انہیں پناہ نہ دی۔ 1948 میں برطانیہ نے ان یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر دیا۔
1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی، جسے عربوں نے مسترد کر دیاجبکہ یہودیوں نے قبول کیا۔مئی 1948ء کو برطانوی اقتدار کے ختم ہونے سے ایک دن قبل جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے مملکت اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ اگلے دن چار عرب ملکوں، مصر، شام، اردن اور عراق کی افواج فلسطین میں داخل ہو گئیں. لیکن اسرائیل کامیاب رہا اور فلسطین کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا جسے فلسطینی "نکبہ" (تباہی) کہتے ہیں اور 1948 کی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی۔ یہ سب سے زیادہ طویل تنازعات میں سے ایک ہے جو76 سال سے جاری ہے۔
اسرائیل کا قیام اور فلسطین پر ناجائزقبضہ غیر منصفانہ اور المناک ہے۔ لیکن سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پون صدی پر محیط اس ناانصافی پر مسلم امہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اسرائیل نے نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کر دیا ۔لاکھوں کو ہلاک کر دیا بلکہ اردن، شام، مصر اور لبنان کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔تعلیمی اداروں، ہاسپٹلز تک پر حملے کر کے ہزاروں معصوم خواتین اور بچے شہید کیے جا چکے ہیں۔انہیں اشیائے خوردونوش اور میڈیکل اسپلائیز سے محروم کر کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔مگر ہیومن رائٹس ادارے اور اقوام متحدہ خاموش ہیں بلکہ اس ظلم میں حلیف بن کرایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
1967 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے بیت المقدس سمیت مغربی کنارے اور غزہ پر اپنا تسلط جما لیا۔چند ایک ممالک جیسے ترکی اور ایران نے اسرائیل کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے۔لیکن اکثر اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور اس سے تجارتی و سفارتی تعلقات بھی استوار کیے ہوئے ہیں۔
جو مسلم ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے وہ محفوظ رہیں گے۔اور اسرائیل کا فوکس صرف فلسطین پر قبضے تک محدود رہے گا۔یہ ان کی غلط فہمی ہے۔اگر انہوں نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی تو جلد ہی وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔اسرائیل کا منصوبہ صرف فلسطین پر قبضے تک محدود نہیں ہے بلکہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے تحت وہ پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے عزائم مصر، اردن، شام اور عراق تک پھیلے ہوئے ہیں۔
امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک نہ صرف اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں بلکہ فنڈنگ بھی کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔جیسے امریکہ نے اسامہ کی تلاش کا بہانہ بنا کر افغانستان، عراق اور دیگر ممالک کو تباہ کیا ویسے ہی اسرائیل حماس کا نام لے کر عرب خطے کو ملیا میٹ کر کے اس کے کھنڈرات پر گریٹر اسرائیل کی تعمیر کا خواب نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ اس خواب کی تعبیر کے لیے رات دن کوشاں بھی ہے۔
اگر باقی مسلم ممالک فلسطین جیسی تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں متحد ہو کر فلسطین کی آزادی اور بقا کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تو سب مسلم ممالک کو متحد ہو کر اسرائیل اور اس کے حامی ممالک پر سفارتی دباؤ ڈالنا ہو گا کہ وہ نہ صرف سیز فائر کرے۔ بلکہ فلسطینیوں کو ان کے علاقوں میں دوبارہ آباد بھی کرے۔اگر سفارتی معاملات ناکام رہیں تو تجارتی بائیکاٹ کیا جائے۔ مسلم ممالک اپنے اثاثے ان کے بینکس سے نکال لیں، اپنے کاروبار بند کر دیں، انہیں تیل سپلائی نہ کریں ،مل کر ایسی فوج تشکیل دیں جو اسرائیل اور اس کے حامی ممالک سے مقابلہ کر کے اپنے فلسطینی بھائیوں کوظلم سے آزادی دلا سکیں۔ نہ صرف سفارتی سطح پر فلسطین کا مسئلہ اجاگر کیا جائے بلکہ پرنٹ، الیکٹرانک، سوشل میڈیا پر بھی تشہیر کی جائے، حقائق سامنے لائے جائیں۔کیونکہ اسرائیل خود کو مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم بنا کر پیش کر رہا ہے۔اکثر معاہدوں کی خلاف ورزی کر کے نہتے خواتین، بچوں اور مریضوں پر حملے کر کے الزام حماس ، حزب اللہ پر لگا دیتا ہے۔
اگرچہ اسرائیل ابھی مکمل طور پر فلسطین پر قابض نہیں ہو سکا مگر غزہ کو بلڈوز کر کے اس پر اسرائیلی کالونیز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس نے اگلے اہداف پر حملوں کو آغاز کر دیا ہے۔جن میں سر فہرست لبنان ہے۔جہاں وہ اپنے سب سے بڑے اور خطرناک حریف حزب اللہ کو نشانہ بنا رہا ہے۔شام پر بھی فضائی حملے جاری ہیں۔ایران کو اسرائیل اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے اور اس کے جوہری پروگرام کو اڑانے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔اردن میں فلسطینی پناہ گزین بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کی نسل کشی کے لیے اردن کی تباہی بھی لازمی ہو گی۔مصر اور اسرائیل کے درمیان 1979 سے امن معاہدہ ہے لیکن یہ مصر کی سلامتی کی ضمانت ہرگز نہیں۔کیونکہ یہودی ازل سے معاہدے توڑنے کے لیے بدنام ہیں خواہ اللہ سے ہوں یا اس کے بندوں سے لہذا اسے مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ رہنا چاہیے۔ رہ گیا پاکستان تو ہم تو پہلے ہی امریکہ ، انڈیا، افغانستان کی ہٹ لسٹ پر ہیں اس لیے ایران کے بعد اگلا وار ہم پر ہی ہو گا۔لہذا نہ صرف امت مسلمہ بلکہ مسلم حکمرانوں کو بھی آپس کے اختلافات مٹا کر اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ یہ حکم ربی بھی ہے:"اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں (کی آزادی) کے لیے نہیں لڑتے، جو (ظالموں کے ہاتھوں) کمزور کر دیے گئے ہیں، جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال، جس کے لوگ ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار مقرر کر دے۔"النساء: 75
جس صبر و استقامت سے فلسطینی ظلم برداشت کر رہے ہیں اللہ تعالٰی دیکھ رہا ہے اور ان کی مدد کی فریاد اور ہمارا کمزور ایمان اور بے حس رویہ بھی۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں مظلوم فلسطینیوں کی بدعا لگ جائے کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔اور ہم نہ دنیا کے رہیں نہ آخرت میں پناہ ملے۔
تبصرہ لکھیے