ہوم << پروفیسر خورشید:جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید:جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید رحمہ اللہ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر رہے۔ ان کے سینے پر سجے اس تمغے کی قدر وہی کچھ ہے جو عبدالستار ایدھی کو ملے حکومتی تمغے کی ہو سکتی ہے۔ ایدھی مرحوم کی اپنی مستقل شناخت کسی تمغے کی محتاج نہیں ہے۔ 100- 50 سال بعد کے پروفیسر خورشید کی جھلک میں آج ہی دکھا دیتا ہوں جو نائب امیر والی نہیں بلکہ وہ ہے جس نے کل عالم میں اسلامی نظام معیشت اور بلا سود بینکاری متعارف کرائے ہیں۔ ادھر جماعت اسلامی کی بطور ایک عالمگیر اسلامی تحریک کے اپنی مستقل حیثیت ہے۔ مرحوم کا کمال یہ ہے کہ سیاسی راہنما ہو کر بھی اپنی ہیولہ سازی میں وہ یوں اوج کمال پر رہے کہ جیسے وہ سبھی جماعتوں کے عام سے کارکن ہیں۔ وہ طویل عرصہ سینیٹر رہے۔ قائد ایوان یا قائد حزب اختلاف نہ ہو کر بھی وہ تا دم رحلت ان دونوں حیثیتوں کے احترام سے بہرہ مند رہے۔

اس سے یہ نہ سمجھیے کہ اسلام کا کوئی اور قد آور عالمی راہنما شاید اب باقی نہیں ہے۔ اجتہادی بصیرت لیے اور نصوص (قرآن و سنت) سے نکتہ سنجی والے اپنے مولانا زاہد الراشدی متبحر عالم دین ہیں۔ ان کی صفات حمیدہ کا پہلے کبھی تذکرہ کر چکا ہوں، آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ مفتی تقی عثمانی بھی عالمی سطح کے ماہر اقتصاد اسلامی ہیں۔ بلا سود بینکاری میں ان کا اپنا مکتب فکر ہے جسے نکھرنے اور قبولیت عام حاصل کرنے میں ابھی خاصی طاقتور کشش ثقل چاہیے۔ اب مجھے ان محترمین میں ذرا سے موازنے کی اجازت دے ہی دیجئے۔ پروفیسر صاحب نے جماعت اسلامی کا عہدے دار ہو کر بھی ہمیشہ جماعتی سیاست سے بالا ہو کر کام کیا اور کامیاب بھی رہے۔ مفتی صاحب محترم بھی عالمی مدبر ماہر اقتصاد اسلامی ہیں۔ لیکن انتخابی سیاست کے مواقع پر کسی سیاسی جماعت میں نہ ہو کر بھی وہ ایسے سیاست دان بن کر رہے کہ گویا وہ اتھلے پانیوں کے شناور ہوں جبکہ پروفیسر خورشید ایسے مواقع پر غیر محسوس طریقے پر دامن بچا کر ہمیشہ گہرے پانیوں کی طرف نکل جاتے رہے۔

پروفیسر خورشید فلموں ڈراموں کے آدمی نہیں تھے کہ ذرائع ابلاغ ان کی رحلت پر تعزیت کریں۔ ماتم میت کے گھر میں ہوتا ہے، پڑوس میں زندگی جوں کی توں رہتی ہے۔ اندرون ملک سے حزن و ملال بھرے درجنوں تعزیتی پیغام آج کا موضوع نہیں ہیں۔ مرحوم کے کام وطنی حد بندیوں سے ماورا کل عالم کو منور کر رہے ہیں۔ چنانچہ ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کے پیغام تعزیت کا اختصار یوں ہے: "پروفیسر خورشید محض ایک سیاست دان نہیں بلکہ فی الاصل وہ جدید تصورات پر قائم اقتصاد اسلامی کے معمار تھے....... ان کی رحلت دنیائے اسلام کے لیے بحیثیت مجموعی ایک سانحہ کبریٰ ہے۔ تاہم ان کی علمی میراث ہماری اگلی نسلوں کو روشنی فراہم کرتی رہے گی".

ترکیہ کے سابق وزیراعظم (16- 2014) اور فیوچر پارٹی کے سربراہ احمد داؤد اولو کا نوحہ چند سطری نہیں ہے۔ انہوں نے مرحوم کی معمار اول اقتصاد اسلامی والی حیثیت اور اتحاد امت مسلمہ سے ان کی گہری وابستگی یاد کرتے ہوئے ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر سابق ترک وزیراعظم کے اس طویل مضمون کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: "پروفیسر صاحب پاکستان کے چند اہم سیاست دانوں میں سے ایک اور اقتصاد اسلامی میں قائدانہ کردار کے حامل تھے". اور یہ کہ: "اپنے قابل قدر دوست اور اقتصاد اسلامی کے چند قائدین میں سے ایک پروفیسر خورشید کی رحلت کی خبر میں نے بڑے بوجھل دل کے ساتھ سنی'. یہ سابق وزیراعظم ترکیہ عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لیے پروفیسر صاحب کے ساتھ کام کرتے رہے. یہ بات وہ یوں بیان کرتے ہیں: "ان بہت سے کاموں میں جو ہم نے مل کر کیے, میں ان کے اخلاص کا گواہ ہوں. میں اس کا بھی گواہ ہوں کہ عالم اسلام کے مسائل حل کرنے اور اس کے اتحاد کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی".

افغانستان کے معروف صدارتی امیدوار اور میرے دیرینہ دوست ڈاکٹر فضل الہادی وزین آج کل ترکیہ میں مقیم ہیں۔ کبھی بات کرنا ہو تو پہلے ہم بذریعہ واٹس ایپ وقت طے کر لیتے ہیں۔ لیکن پروفیسر صاحب کی رحلت پر روہانسے ہو کر انہوں نے مجھے براہ راست فون کر دیا: "شہزاد، میں آپ سے تعزیت کرتا ہوں اور تم مجھ سے کرو. بتاؤ یہ کیا ہو گیا۔ ترکی میں ہوں اور بد قسمت ہوں کہ ان کے جنازے میں نہیں جا سکتا۔ وقت بتاؤ، میں اپنا نمائندہ بھیجوں گا". میں نے انہیں برطانیہ میں نماز جنازہ اور پاکستان میں غائبانہ نماز جنازہ کے اوقات بتائے تو انہوں نے اپنے نمائندے بھیجے۔

ترکیہ میں مقیم یہ سابق افغان صدارتی امیدوار ڈاکٹر وزین عالمی اتحاد علمائے مسلمین اور مسلم ورلڈ فورم برائے فکر و تہذیب کے رکن بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے عربی، اردو، ترکی اور انگریزی میں پروفیسر صاحب پر طویل تعزیت نامہ بھیجا ہے۔ بخوف طوالت چنیدہ اقتباسات کچھ یوں ہیں: "عظیم دانشور و اسلام شناس, ممتاز مفکر, نجیب و شریف سیاستدان, حکیم دعوت گر, ماہر محقق, زبردست مصنف, معاصر اسلامی بیداری کی تحریک کے درخشاں ستاروں میں سے ایک, الحمدللہ کئی بار ملاقات کر کے ان سے علمی و روحانی فیض پایا. ہر ملاقات پر ان کی علمی گہرائی, فکری وسعت اور روحانی عظمت سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا. میں اپنی, اپنے خاندان اور افغانستان کے عوام کی طرف سے پوری امت مسلمہ، برصغیر کے مسلمانوں، پاکستانی قوم، عالم اسلام کے علمی و دعوتی حلقوں، اسلامی بیداری تحریک کے رہنماؤں، دوستوں، محسنوں، جماعت اسلامی پاکستان، بنگلہ دیش و ہند کے تمام قائدین سے تعزیت کرتا ہوں".

اس مضمون کی تیاری میں مجھے ترکی سے انگریزی اردو ترجمے کی ضرورت رہی۔ ترکیہ ہی میں مقیم میرے دوست اور مقبوضہ کشمیر کے نامور صحافی اور سید علی گیلانی رحمہ اللّٰہ کے داماد جناب افتخار گیلانی نے مجھے بھرپور مدد دی۔ محترم ڈاکٹر فضل الہادی وزین نے بھی موقع بموقع رہنمائی کی۔ میں اپنے ان دونوں بھائیوں کا شکر گزار ہوں۔ اخباری مضمون زیادہ پیغامات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امید ہے مرحوم کا ادارہ تمام اہم پیغامات کو کتابی شکل میں مرتب کرے گا۔ مرحوم کی نور بھری زندگی کے چند اہم گوشوں کا ذکر انشاءاللہ اگلی دفعہ کروں گا۔