ہوم << ڈیجیٹل دور میں نوجوانوں کی توجہ بٹانے والے عوامل اور حل - عاصمہ حسن

ڈیجیٹل دور میں نوجوانوں کی توجہ بٹانے والے عوامل اور حل - عاصمہ حسن

آج کے اس ڈیجیٹل دور میں ہمارے پاس معلومات کا ایک وسیع خزانہ موجود ہے کیونکہ انٹرنیٹ ' ہر ایک کی دسترس میں ہےاورموبائل کا استعمال بھی عام ہو چکا ہے ـ کئی ایسے پلیٹ فارمز ہیں جو فیس لے کر کورسز کرواتے ہیں' وہیں کئی ادارے ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی اجرت کے کئی اسکلز سکھانے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں تاکہ نوجوان نسل کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے ـ

آج کے اس دور میں کچھ بھی سیکھنا مشکل یا ناممکن نہیں رہا ہے ـ جہاں فزیکل کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے وہیں آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی سہولیات بھی میسر ہیں 'صرف سیکھنے کی لگن ہونا ضروری ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ پہلے مستقل مزاجی و سکون سے سیکھا جائے پھر اس سیکھے ہوئے کو عملی زندگی میں استعمال کیا جائے ـ سیکھنے کا یا تعلیم حاصل کر لینے کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوتا جب تک ہم اس پر عمل نہ کریں ـ

جیسے کتاب پڑھ لینا کا فی نہیں ہوتا بالکل اسی طرح یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر وڈیوز یا لیکچر لے لینے سے یا دیکھ لینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک ہم سوچ بچار نہ کریں اس پڑھے اور سیکھے ہوئے پر عمل نہ کریں ـ یاد رہے کہ ہم اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں ـ جب کوشش کریں گے تبھی غلطیاں ہوں گی اور جب غلطیاں ہوں گی تبھی تو ہم سیکھیں گے ـ نئی راہیں اپنے لیے تلاش کریں گے ـ دراصل نمو کوشش اور غلطی کا ایک عمل ہے ـ

آج کل کے بچے چھوٹا اور آسان راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں ' بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں ـ دوسروں کو دیکھ کر ان جیسا بننے کی کوشش میں اپنی قدرتی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ' اپنی دلچسپی کے مطابق کام کرنا اپنی اسکل یا مہارت کو نکھارنا بھول جاتے ہیں ـ پھر چاہتے ہیں کہ رات و رات کوئی جادو کی چھڑی ہلائیں اور منزل پر پہنچ جائیں ' جو کہ ناممکن ہے ـ کچھ لوگوں کے لیے منزل یا کامیابی آجکل پیسے کا حصول بن کر رہ گیا ہے ـ

آج کل سوشل میڈیا پر کچھ لوگ یا انفلوئنسر (جو لوگوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں )کھانے پینے' گھومنے پھرنے کی تصاویر لگاتے ہیں ' اپنی بڑی بڑی گاڑیوں ' برینڈڈ کپڑوں ' جوتوں کی تصاویر یا وڈیوز لگاتے ہیں جس سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ احساسںِ کمتری کا بھی شکار ہو جاتی ہے اس کے علاوہ ان لوگوں کی طرح پیسہ کمانا چاہتی ہے ' پھر دولت کے حصول کے لیے دو نمبریاں شروع کر دیتی ہے ـ محنت و مشقت سے دور بھاگنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ محنت کا راستہ صبر سے بھرپور اور طویل ترین ہوتا ہے ـ

وہیں آج کے کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو تعلیم یا ڈگری کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور محنت میں عظمت ہے کہ اصول پر بھی کاربند ہیں ـ وہ سیکھنا بھی چاہتے ہیں اور اپنے سیکھے علم کو عملی شکل بھی دیتے ہیں ' معلومات اکٹھی کرنا' تحقیق کرنا اور اس میں ویلیو ایڈ کرنا یعنی پالش کرنا بھی بخوبی جانتے ہیں ـ بات ساری لگن' ہمت و حوصلے کی ہے پھر اگر سمت درست ہو ' رہنمائی مل جائے تو چار چاند لگ جاتے ہیں ـ

دنیا میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں جن کی سوچ ایک دوسرے سے مختلف ہے ـ انہی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کتب بینی سے بہت دور ہیں ' ان کا کہنا ہے کہ کتابوں کو پڑھ کر وقت کا ضیاع ہوتا ہے مزید یہ کہ کتب سے کچھ سیکھا نہیں جا سکتا ـ اب سوچیں کہ جو لوگ ایسی فرسودہ سوچ کے مالک ہیں وہ اپنی اولاد کو کیا سکھا پائیں گے ' ان کی تربیت کیسے کریں گے ـ جہاں بچے کی پہلی درس گاہ والدین ' گھر اور گھر کا ماحول ہوتا ہے وہاں بچوں کی شخصیت کا یہ خلا کیسے پُر ہو گا ـ پھر جہاں بچے کی سوچ کو پروان نہیں ملتی ' جہاں ان کے پَر کاٹ دیے جاتے ہیں تو وہ بچے کیسے آسمان کی وسعت کو پہچانیں گے یا پرواز بھر سکیں گے ـ ایسے میں ملک و قوم کا مستقبل داؤ پر ہی لگے گا ـ

دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کام تو کرتے ہیں لیکن صرف جان چھڑاتے ہیں کہ بس کام ہو گیا ' اس کو دوبارہ نہیں دیکھتے ـ جب ہم اپنے کیے کام کو دوبارہ نہیں دیکھتے' پرکھتے نہیں ہیں اسے اغلاط سے پاک نہیں کرتے تو اس میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں ـ ایک وقت میں جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو ذہنی کیفیت مختلف ہوتی ہے لیکن جب دوسرے وقت ' مناسب وقفے کے بعد اس کو پڑھتے یا دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی غلطیاں نظر آتی ہیں اور اس طرح کئی چیزوں میں بہتری آ جاتی ہے ـ صرف باصلاحیت ہونا کافی نہیں ہوتا ' خود کو ہرفن مولا سمجھنا یا ہر وقت سمجھدار و لائق فائق سمجھنا بھی صحیح نہیں ہوتا ' کوئی بھی کامل نہیں ہوتا نہ ہی کوئی تمام فیلڈز میں ماہر ہو سکتا ہے ـ ہمیں گزرتے وقت کے ساتھ خود میں تبدیلی لانی چاہئیے اور وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلنے میں ہی بہتری ہے ـ

ہمیشہ یاد رکھیں کہ مواقع گھر کا دروازہ نہیں کھٹکاتے بلکہ مواقع ہمیں خود بنانے پڑتے ہیں ـ راستے آسان نہیں ہوتے بلکہ راستے کے پتھر ہمیں خود اٹھا کر اسے ہموار کرنا پڑتا ہے ـ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور وسائل کی شدید کمی ہے ' جہاں کوئی مدد کرنے یا راہ دکھانے والا نہیں اس لیے ہمیں خود محنت کرنی ہو گی اور منزل تک کے راستے تلاش کرنے ہونگے ـ

کسی دوسرے پر انحصار کی بجائے اپنے زورِ بازو پر ' اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا ہو گا ـ یہ جو خلل ہیں جو نوجوانوں کو ان کے مقاصد سے ہٹاتے ہیں یا ان کی سوچ کو مفلوج کر دیتے ہیں جیسا کہ سوشل میڈیا کی لت' سکرولنگ کرتے سمے وقت کا ضیاع' آن لائن گیمنگ کا جنون جو چڑچڑاپن ' ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی کا باعث بنتا ہے ' ٹک ٹاک' یوٹیوب کی فضول شارٹ وڈیوز جس نے لوگوں کی توجہ کا دورانیہ کم کر دیا ہے اور دیگر فضولیات سےہمیں اپنے آپ کو بچانا ہو گا ـ اس کی جگہ کتب بینی کو فروغ دینا چاہئیے' جسمانی سرگرمیوں کا انعقاد ہونا چاہیے' پھر اسکول' کالجوں اور یونیورسٹی کی سطح پر ایسے سیمینار اور ورکشاپ ہونی چاہئیے جن سے طبا و طالبات میں تعلیمی شعور بیدار کیا جائے' انہیں جدید علوم سے نہ صرف روشناس بلکہ لیس کیا جائے ـ ان کو وقت کی قیمت اور مناسب استعمال اور ڈیجیٹل نقصانات کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے وقت اور وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کر سکیں ـ ان کو سکھایا اور بتایا جائے کہ گیجٹس کو کیسےاور کتنا استعمال کرنا ہے ' سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز کو کیسے بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے مزید یہ کہ کیسے اپنے مقصد کو چھوٹے چھوٹے اہداف میں تقسیم کیا جائے ' اپنی سوچ کے دائرے کو کیسے وسیع کیا جائے تاکہ آنے والے چیلنجز کا بخوبی مقابلہ کیا جا سکے ـ

جب اپنے ہدف سے دور ہونے لگیں تو اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیوں آپ نے یہ کام شروع کیا تھا یا اس مقصد کے پیچھے کیا محرکات تھے ـ اپنے آپ کو خود موٹیویٹ کرنے والے بنیں ـ جب ہم کسی مقصد کے لیے محنت کرتے ہیں ' اپنے دن کا آرام اور راتوں کی نیندیں حرام کرتے ہیں تبھی کامیابی کا مزہ چکھتے ہیں اور محنت کر کے تجربات سے گزر کر سیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے اور پھر کامیابی کی خوشی بھی دیدنی ہوتی ہے ـ

ہمیشہ یاد رکھیں کہ کوئی آپ کی مدد نہیں کرے گا' آپ کے لیے راستے نہیں بنائے گا' کوئی آپ کی انگلی پکڑ کر نہیں چلے گا اور سب سے بڑھ کر کوئی آپ کے خوابوں کو نہیں سمجھے گا لہذا لوگوں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں ـ اپنے دیکھنے' سوچنے' سمجھنے کا دائرہ وسیع کریں اور سیکھنے پر زور دیں' پھر جہاں مرضی سے سیکھیں اور زیادہ سے زیادہ پریکٹس کریں یہاں تک کہ آپ اس کام میں ماہر بن جائیں ـ

ہمت ہار دینا' مایوس ہونا' اپنی زندگی کی لغت سے نکال دیں ـ کر گزریں کیونکہ کریں گے تبھی گریں گے' گریں گے تبھی سنبھلنا آئے گا ـ ناکام ہوں گے تبھی کامیابی کی طرف گامزن ہوں گے ـ ناکامی ہی دراصل کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے کیونکہ آپ اپنے ڈرو خوف کو مات دے کر قدم اٹھاتے ہیں تو بس سیکھتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں ـ یہی زندگی کی کامیابی کا سب سے اہم راز ہے ـ

ٹیکنالوجی ایک طاقتور ذریعہ ہے اس کا مثبت استعمال ہی کامیابی کی طرف لے کر جا سکتا ہے ـ ہمیں بحیثیت والدین' استاد اپنے بچوں میں شعور پیدا کرنا ہو گا ' ان کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر بہترراہ دکھانی ہو گی ـ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ان کو سیدھے اور کامیابی کے راستے پر لایا جا سکےـ

Comments

Avatar photo

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment