دنیا کی سیاسی بساط پر کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتے، بلکہ ہر لمحہ نئی کسک کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ فلسطین بھی ایک ایسا ہی زخم ہے، جو صدیوں سے عالمی ضمیر پر رِس رہا ہے۔ انسانیت کے دعویدار معاشروں، امن کے نعرے لگانے والی اقوام، اور حقوقِ بشر کے علمبردار اداروں کے سامنے مظلوم فلسطینی اپنے وجود، اپنی زمین، اور اپنی شناخت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
عالمی سیاسی تناظر میں فلسطین کا مسئلہ محض ایک خطہِ زمین کا تنازعہ نہیں، بلکہ یہ استعمار، طاقت کے نشے، مذہبی جنون، اور عالمی منافقت کا آئینہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے، اور ہزاروں احتجاجی قراردادیں سب تاریخ کے صفحات پر پڑی دھول میں گم ہو چکی ہیں۔ طاقتور ملکوں کے مفادات اور اسلحے کی صنعت کا پیٹ بھرتے ہوئے، فلسطینی بچے، بوڑھے، اور عورتیں کچلے جا رہے ہیں۔
عالمی سیاست میں فلسطین کا مستقبل ایک اندھیرے راستے کا مسافر ہے، جس کے چاروں طرف مفاد پرست طاقتیں اپنی بساط بچھائے بیٹھی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک بھی بےحسی کی چادر اوڑھے، اپنی سلطنتوں کے تحفظ اور معیشت کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ فلسطینی عوام کے لیے زبان کھولنا، اب صرف چند مظلوم دلوں اور غیرت مند قلموں کا کام رہ گیا ہے۔
تاہم تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب مظلوم کی آہ فضاؤں میں گھلتی ہے، تو بڑے بڑے تخت الٹ جایا کرتے ہیں۔ فلسطین کی مٹی میں دفن شہیدوں کی قربانیاں، کٹی ہوئی زیتون کی شاخیں، اور مسمار شدہ گھروں کی اینٹیں گواہ ہیں کہ وہ دن بھی آئے گا، جب بیت المقدس کی فضاؤں میں اذانِ حق بےخوف گونجے گی، اور عالمی سیاست کے کٹھ پتلی تماشے بے نقاب ہوں گے۔یہ سچ ہے کہ ابھی اندھیری رات ہے، اور سیاسی افق پر انصاف کی روشنی کمزور ہے، مگر تاریخ کا سفر کبھی رکتا نہیں۔ فلسطین کی آزادی، انسانی ضمیر کی فتح کا نام ہے، اور یہ فتح تاخیر کا شکار تو ہو سکتی ہے، مگر ناممکن نہیں۔
مگر کیسے؟
یہ سوال تاریخ کی راہ داریوں میں گونج رہا ہے، اور اس کا جواب بھی وہی تاریخ دے چکی ہے۔ جب مظلوم قومیں اپنی تقدیر کا فیصلہ دوسروں کے ایوانوں سے مانگنا چھوڑ دیتی ہیں، اور اپنی صفوں میں اتحاد، بیداری اور قربانی کا جذبہ جگا لیتی ہیں جب قلم، زبان اور بازو ایک نصب العین پر یکجا ہو جاتے ہیں. جب امت کے ٹکڑے اپنے مفاداتی خول توڑ کر، ایک مظلوم قوم کی پکار پر لبیک کہتے ہیں تب ہی انقلاب جنم لیتا ہے۔فلسطین کی فتح اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ظلم کی ہر شکل کے خلاف یکساں آواز نہیں اٹھے گی۔ وہ وقت آئے گا جب دانشور، عالم، شاعر، طالب علم، مزدور، اور سپاہی سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اعلان کریں گے کہ اب کفن باندھ کر نکلے ہیں حق کی گواہی دینے۔
انقلاب صرف بندوق سے نہیں آتا، شعور سے آتا ہے۔ جب دنیا کے ضمیر جھنجوڑنے والے الفاظ، مزاحمتی شاعری، احتجاجی تحریریں، اور انسانیت کی آوازیں عالمی ضمیر کو جگانے لگیں گی اور جب مسلم دنیا اپنی خودغرضی ترک کر کے امتِ واحدہ بن جائے گی تو نہ دیوار باقی رہے گی، نہ زنجیر۔ بیت المقدس کی گلیاں پھر اذانِ حق کی صدائیں سنیں گی، اور وہ دن تاریخ کا سنہری باب ہو گا۔ یہی راستہ ہے، یہی طریقہ ہے، اور یہی انقلاب کی اصل صورت ہے۔
تبصرہ لکھیے