ہوم << ذہنی صحت اور علاج - چوہدری عامر عباس

ذہنی صحت اور علاج - چوہدری عامر عباس

وسیم ایک عام سا نوجوان تھا. اچھا بھلا، پڑھائی میں بھی بہترین. ہنسنے کھیلنے والا. اچانک اسکی طبیعت میں بدلاؤ آنے لگا. اندر جیسے کچھ ٹوٹ رہا ہے. بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا، چہرہ صاف، لباس درست، رویہ مہذب. مگر آنکھوں میں ایک ایسی اداسی تھی جو شور میں بھی خاموشی کی گواہی دیتی تھی۔ لوگ اسے دیکھتے اور کہتے:

"بہت حساس ہے… کچھ زیادہ ہی سوچتا ہے!"
مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ اندر ہی اندر ٹوٹ رہا ہے۔ ہر دن، ہر لمحہ، جیسے کوئی اس کی روح کو کھینچ رہا ہو۔

شروع میں صرف نیند اڑتی تھی، پھر بھوک مر گئی۔ دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا، محفلوں سے اجتناب برتا، پھر آہستہ آہستہ وہ زندگی سے بھی دور ہونے لگا۔ اس نے ہمت کر کے ایک دن ماں سے کہا،
"امی، دل بہت گھبراتا ہے. ایک انجانا خوف سا ہے. جیسے کچھ ہونے والا ہے. عجیب سا ڈر لگتا ہے۔" ماں نے پیشانی پر ہاتھ رکھا اور کہا،
"نماز پڑھا کرو، دل کو سکون ملے گا۔"

وہ لڑکا نماز پڑھنے لگا، سجدے کیے، ہاتھ اٹھائے، آنسو بہائے۔ وہ ہر سجدے میں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتا رہا، مگر اندر کچھ تھا جو ٹوٹ چکا تھا. کچھ ایسا جسے ابھی تک اپنی دعاؤں سے جوڑ نہیں پایا تھا.

یہ صرف وسیم کی کہانی نہیں، یہ ہزاروں لاکھوں ان نوجوانوں کی کہانی ہے جو روز زندہ رہنے کی اداکاری کرتے ہیں مگر اندر سے مر چکے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ڈپریشن، انگزائٹی، پینک اٹیکس، اور دیگر ذہنی بیماریوں کا شکار افراد مرد و خواتین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مگر ہمارے رویے؟ وہ آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں صدیوں پہلے تھے۔
ہمارے ہاں اگر کوئی کہے کہ اسے "ڈپریشن" ہے تو فوراً فتوے لگتے ہیں:
"ایمان کمزور ہے"
"دین سے دوری ہے"
"نماز نہیں پڑھتے نا، اسی لیے!"

حالانکہ ڈپریشن ایک باقاعدہ فزیکل یعنی جسمانی بیماری ہے، دماغ میں مختلف قدرتی کیمیکلز ڈوپامین، سیروٹونن،میلاٹونن وغیرہ کا قدرتی توازن بگڑنے سے پیدا ہونے والی ایک کیفیت بالکل ویسے ہی جیسے شوگر یا بلڈ پریشر کا مرض۔ڈپریشن کا مریض بظاہر ہنستا مسکراتا نظر آتا ہے، لیکن اندر سے وہ ایک اندھیرے غار میں قید ہوتا ہے۔ اس غار میں آواز گونجتی تو ہے، مگر کوئی سن نہیں پاتا۔ اس کی زبان بولتی ہے، مگر لوگ اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ وہ جب کہتا ہے "میری سانس رکتی ہے"، تو جواب ملتا ہے "بس وہم ہے۔" جب کہتا ہے "دل گھبراتا ہے"، تو کہا جاتا ہے "دم کروا لو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب اس کے ہاتھ سے امید کا آخری سرا بھی چھوٹ جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی یہ صرف ایک لمحہ ہی ہوتا ہے. ایک پل جس میں وہ زندگی کو خدا حافظ کہہ دیتا ہے۔تھوڑا زہن کو وسعت دیجئے. ہمیں سمجھنا ہوگا کہ نماز، اذکار اور روحانیت بے شک زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہیں، مگر جب جسم کا کا اندرونی نظام بگڑ جائے تو اس کے ساتھ ساتھ علاج بھی ضروری ہے۔ جیسے بخار کے لیے دوا لی جاتی ہے ویسے ہی ذہنی بیماری کے لیے ماہرِ سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ سے رجوع کیا جانا ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ عقلمندی کی علامت ہے۔

پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ سلم خود بیماری کی حالت میں علاج فرماتے تھے. صحابہ کرام علاج کرواتے تھے تو ہم کس دلیل پر صرف دعا کو کافی سمجھتے ہیں؟ دعا وہ کنجی ہے جو دروازے کھولتی ہے مگر دوا وہ قدم ہے جو ہمیں اس دروازے تک لے جاتا ہے۔ضرورت ہے کہ ہم ذہنی صحت کو بھی اتنی ہی اہمیت دیں جتنی جسمانی صحت کو دیتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں، بہن بھائیوں، دوستوں اور شریکِ حیات کی خاموشیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی خاموش ہے، الگ تھلگ ہے، معمول سے ہٹ کر رویے ظاہر کر رہا ہے تو اسے نماز کی تلقین ضرور کریں مگر اس کے ساتھ محبت سے یہ بھی کہیں:
"چلو، کسی سائیکاٹرسٹ سے بات کرتے ہیں۔"

یہ کہنا شرمندگی کی بات نہیں، یہ تو محبت کی سب سے خوبصورت شکل ہے۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ جیسے آنکھ کا علاج ماہرِ چشم سے کروایا جاتا ہے، دل کا علاج ماہرِ قلب سے، ویسے ہی دماغ کا علاج ماہرِ سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ سے ہی ممکن ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے اردگرد کے ان خاموش چیخنے والوں کی آہٹ نہ سنی تو کل ان کی خاموشیاں ہمیں تاحیات بےآواز کر دیں گی. اور یاد رکھیں، نماز کے ساتھ ساتھ دوا لینے میں کوئی گستاخی نہیں۔ بلکہ یہی کامل ایمان کی علامت ہے.

Comments

Avatar photo

چوہدری عامر عباس

چوہدری عامر عباس وکیل، صحافی، کالم نویس اور مصنف ہیں۔ گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور سے صحافت اور سیاسیات میں گریجویشن کرتے ہی شام کے اوقات میں ایک بڑی ملکی اخبار میں بطور سب ایڈیٹر جوائن کیا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی کیا ہے، صحافت میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی جبکہ وکالت کےساتھ صحافتی سفر بھی جاری رہا۔ مختلف اخبارات میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور حالات حاضرہ کے موضوعات پر "قلم کٹہرا" کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ "قلم کٹہرا" نامی کتاب شائع ہو چکی ہے

Click here to post a comment