جب اولاد عمر کی اس دہلیز پر قدم رکھتی ہے جہاں بچپن کے سادہ خواب، جوانی کے پُرآشوب لمحات میں ڈھلنے لگتے ہیں، تو والدین کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ فقط نگرانِ جسم نہ رہیں بلکہ محافظِ روح بھی بنیں۔ بلوغت، محض حیض یا احتلام کا آغاز نہیں، بلکہ شعور کی آنکھ کھلنے کی گھڑی ہے۔ اس لمحے کو اگر شفقتِ والدین، علم کی روشنی، اور حکمتِ تربیت سے نہ سنوارا جائے تو یہی ساعتیں اولاد کو یا تو بلندی کی طرف لے جاتی ہیں یا پستی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہیں۔
ماؤں کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں سے رازدارانہ تعلق استوار کریں۔ جب وہ جسمانی تبدیلیوں سے دوچار ہوں، تو اُن کے دلوں سے شرمندگی کا غبار محبت کی چادر سے جھاڑیں۔ اُنہیں حیض کے ماہانہ نظام کو صرف ایک حیاتیاتی عمل نہ سمجھائیں بلکہ اِسے پاکیزگی، نسوانیت اور رحمت کی علامت سمجھنے کا شعور دیں۔ اُنہیں طہارت، عبادات کے وقوف، لباس کی نزاکت، اور کردار کی سچائی سکھائیں۔ حیاء کو قید نہ بنائیں بلکہ آزادی کی وہ زنجیر بنائیں جس میں وقار بھی ہو، اختیار بھی۔
باپ، جو اکثر خاموش مشاہدہ کرنے کو تربیت سمجھتا ہے، اُسے چاہیے کہ اپنے بیٹے کے اندر پیدا ہونے والے بے نام سوالات کو خاموشی کی دیوار سے نہ ٹکرائے۔ اُس کی بدلتی آواز، ابھرتی مونچھ، اور نیند کے اندھیرے میں آتے احتلام کے لمحات، اُسے غیروں سے پہلے اپنوں سے سمجھنے کا موقع دیں۔ اُسے مردانگی کا مفہوم فقط جسمانی قوت نہیں بلکہ ضبطِ نفس، نگاہ کی حفاظت اور زبان کی لطافت سے متعارف کرائیں۔
والدین دونوں مل کر اپنی اولاد کے لیے گھر کو ایسا گوشہ بنائیں جہاں سوال بےباک ہو سکیں، اور جوابات باوقار۔ جہاں بلوغت کے مراحل پر پردہ نہیں ڈالا جاتا بلکہ اُن پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ جہاں بچے ماں باپ کو اپنا سب سے پہلا مرشد سمجھیں، اور فتنوں کی اس دنیا میں اُن کی شفقت کو واحد رہنما مانیں۔یاد رکھیں، حیاء کا تقاضا یہ نہیں کہ اولاد کی تربیت میں لب سِل جائیں، بلکہ حیاء تو یہی ہے کہ جس مقام پر بچہ سوال کرے، والدین جواب میں کردار، علم اور محبت کا چراغ جلائیں۔ یہی تربیت ہے، یہی محبت ہے، یہی عبادت ہے۔
تبصرہ لکھیے