ہوم << ملامت خودی - محمد سعد سعدی

ملامت خودی - محمد سعد سعدی

آج کوئی تحریر لکھنے کا ارادہ نہیں بلکہ اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا ارادہ ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ طوفان اقصیٰ کے بارے میں لکھتے، بولتے اور کچھ کہتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔ ضمیر ملامت کرتا ہے۔ آخر تم نے سوائے بلند بانگ دعوؤں، جذباتی نعروں، وقتی جوش اور لفظی مذمتوں کے کیا ہی کیا ہے ؟؟ ہم تو صرف باتوں کے غازی ثابت ہوئے، عملاً کچھ نہ کر سکے۔

ذمہ داری تو مسلم امہ کے حکمرانوں اور افواج کی تھی کہ وہ مادی و عسکری قوت پہنچانے کے لیے عملی اقدامات کرتے اور دنیا کے ہر فورم پہ اپنے بھائیوں کا مقدمہ لڑتے اور ان کی توانا آواز بنتے لیکن شاید ان کے ضمیر مر چکے ہیں، دولت اور حکومت کے نشے نے ان کو اندھا کر دیا ہے جس کی بدولت وہ ان تمام درد ناک مناظر سے نظریں چرائے اطمینان و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ایک سوال اپنے آپ سے بھی ہے کہ مانا کہ ہم وہاں جا نہیں سکتے کہ اپنے بھائیوں کی جانی مدد کرتے، ان کو پانی پلاتے، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے، ملبے تلے معصوموں کی لاشیں نکالنے کے لیے بھرپور قوت لگاتے اور اپنی ماؤں، بہنوں کو عزت کی چادر پہناتے، لیکن ان اندوہناک اور تکلیف دہ مناظر کو دیکھ کر اپنے حقیقی دشمن کو تو پہچان سکتے تھے جس نے ہمارے دلوں کو چیرا، ہمارے جذبات و احساسات کا ہر لمحے خون کیا، ہمیں ہر آن نئے انداز سے نفسیاتی طور پر شکست دینے کی کوشش کی۔ ہم یہ سب کچھ دیکھ کر بھی دشمن کو اپنا خیر خواہ سمجھے بیٹھے ہیں، ان کی سیرت و صورت اور تہذیب و طرز زندگی کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، ان جیسا بننے کو ہی عزت و شرافت کا معیار سمجھتے ہیں اور ان کی پیروی کو ہی کامیابی کی کنجی قرار دیتے ہیں، ان کی بنائی ہوئی چیزیں ہماری نگاہوں کو خیرہ کرتی ہیں، ان کی مصنوعی غذائیں ہی ہمیں لذت و سرور دیتی ہیں، ان کی مادی ترقی اب تک ہماری نگاہوں کو بھا رہی ہے اور ہم اس ترقی کے حصول کے لیے دن کے آغاز سے رات کو الوداع کہنے تک جسمانی و مالی اور وقتی صلاحیتیں وقف کئے ہوئے ہیں، کیا یہ منافقت نہیں ؟ کیا ہم اقصیٰ کے محافظ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ؟

ہم نے اہل غزہ سے طرز زندگی کیوں نہ سیکھا؟ قرآن کی محبت، عبادت کا ذوق، جان و مال کو دین کے غلبے کے لیے لگا دینے کا جذبہ، اللہ اور رسول کے حکم کے مد مقابل آنے والی دنیا کی ہر قیمتی چیز کو ٹھکرانے کا تحمل، راہ خداوندی میں آنے والی ہر تکلیف و آزمائش پر صبر، کٹھن ترین حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور سب سے بڑھ کر ہم نے ان سے قول و فعل میں موافقت کیوں نہ سیکھی ؟ اگر یہ سب نہیں سیکھا تو یقیناً ہم صرف گفتار کے غازی ہیں جن کی دربار الٰہی میں کوئی وقعت نہیں ہوگی۔ اگر ہماری اس گفتار کی وقعت ہوتی تو ہم پے در پے عذاب کے مستحق نہ ٹھہرتے۔ گزشتہ چند دنوں میں ہی متعدد بار زلزلے اور اولوں کی شکل میں آسمان سے برسنے والے پتھر ہمیں متنبہ کر رہے ہیں کہ اب بھی وقت ہے، سنبھل جاؤ اور خود کو بدل لو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے دوست و دشمن کی پہچان کر لو۔ امت مسلمہ کے مبارک اجساد کے اڑتے ہوئے چیتھڑے، زلزلے اور آسمان سے سنگ باری بھی اگر ہمارے دل کو نرم نہیں کر سکی اور زندگی کو ایک نیا رخ نہیں دے سکی تو اس کے بعد ہمیں خود بدلنے کے لیے کس مرحلے کا انتظار ہے؟ ارشاد ربانی ہے:
أَلَمۡ یَأۡنِ لِلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ أَن تَخۡشَعَ قُلُوبُهُمۡ لِذِكۡرِ ٱللَّهِ

اگر اب بھی ہم بیدار نہ ہوئے تو موت ہی ہماری آنکھیں کھولے گی اور اس وقت سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔