ہوم << علم تاریخ اور ہماری ترجیحات - ڈاکٹر محمد عظیم

علم تاریخ اور ہماری ترجیحات - ڈاکٹر محمد عظیم

تاریخ ایک ہمہ گیر علم ہے ۔ اس کو ام العلوم بھی کہا جاتاہے۔ اس کا روایتی یا کلاسیکل نقطہ نظر بھی ملتا ہے اورجدیدبھی۔ اس کاعمومی تجزیہ بھی کیا جاتا ہے اور فکری بھی۔ آئیے اس علم کے نفس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کی وسعت اور افادیت کو سمجھ سکیں۔ اس مضمون میں جہاں بھی لفظ تاریخ استعمال ہوا ہے اس سے میری مراد علم تاریخ ہے۔

تاریخ انسانوں کے لیے ہے ۔ تاریخ زمانوں کے لیے ہے۔ تاریخ چشم کشا ہے۔ تاریخ ہمارامیزان کھاتا (بیلنس شیٹ )ہے۔ اثاثے کامیابی کی صورت ہیں تو ناکامیاں قرض ۔ تاریخ اگر جبراً لکھوائی جا ئے تو حکمران فرشتہ صفت نظر آتے ہیں ورنہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تاریخ المیے بھی جنم دیتی ہے ۔ پوچھا جا تا ہےکہ تاریخ کیا ہے ؟ پوچھا جائے کہ تاریخ کیا نہیں ہے؟ ہر گزرا لمحہ تاریخ بن جا تا ہے۔ گزرا کل تاریخ ہے۔ ماضی کو بھی تاریخ کہلوانے کا شوق ہے ۔ یادیں تاریخ ہیں۔ گزرے پیارے تاریخ ہیں۔ کسی نے کچھ کہا وہ تاریخ ، کسی سے کبھی کچھ سنا وہ تاریخ ہے۔ جو شمار کرلیا وہ تاریخ ہے اور جو شمار نہ ہو سکا وہ تاریخ ہے۔ عمر کا حساب رکھنا وہ تاریخ ہے ۔ آنکھوں سے گزرا منظر وہ تاریخ ہے ۔ لاشعور میں ٹھرا پس منظر وہ تاریخ ہے۔ نصاب میں لکھے واقعات وہ تاریخ ہیں۔ سن و تاریخ کا ریکارڈ وہ تاریخ ہے۔ کسی مضمون کے ارتقاء کو سمجھنا ہو وہ تاریخ ہے ۔ جنگوں کے حالات وہ تاریخ ، امن معاہدے بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔بادشاہوں کے حالات زندگی بھی تاریخ ہےتو عوام کی خدمت گزاری کا ریکارڈبھی تاریخ ہے ۔ الغرض ، تاریخ اس سے بھی آگے کا علم ہے۔ جب سب کچھ تاریخ میں ہے تو پھر یہ اتنی بے وقعت کیوں ہے ؟ ریاست اور حکومت اس مضمون پر اتنی توجہ کیوں نہیں دیتیں ؟ آج کا طالب علم اس سے اتنا بیزار کیوں نظر آتاہے؟ یہ سوالات تو معروضی ہیں لیکن ان کے جوابات فکری نہیں ملتے۔

اگر دیکھا جائے تو تاریخ ایک ایسا علم ہے جو کسی بھی موضوع سے متعلق ہماری ابتدائی سمجھ بوجھ کو بڑھاتا ہے۔ ہر علم و فن کے مطالعہ میں تاریخی پس منظر کی ایک کلیدی حیثیت ہوتی ہے، چنانچہ تاریخ پر سب کا انحصار ہے ۔ جب کوئی مضمون خود اتنا ہمہ گیر ہو تو پھر اس کو پڑھنے اور پڑھانے پر اتنی توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ قرون وسطیٰ کے مسلم معاشروں میں تاریخ کے مضمون کو مکاتب و مدارس میں بہت اہمیت دی جاتی تھی اور لازمی طور پر طلبا ء کو پڑھایاجاتاتھا۔ لیکن آج اسی مضمون کی بے تو قیری اس طرح ہو رہی کہ جامعات کی سطح پر سب سے کم نمبروں پر اسی شعبہ میں داخلے دیے جاتے ہیں،جبکہ کالجوں کی سطح پر طلباء اس مضمون کا انتخاب ہی نہیں کرتے ۔ ترقی پذیر ممالک کا یہ المیہ ہے کہ یہاں حصول علم کو حصول روزگار سے جوڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے جن مضامین کی مارکیٹ ویلیو نہیں ہوتی ان کی اہمیت کم ہو جاتی ہےاور انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ ان کو نصا ب سے بھی خارج کردیا جا تا ہے ۔

تاریخ کو پڑھنا ہی دراصل تاریخ کو سمجھنے کی کسوٹی ہے۔اصل مسئلہ یہاں سے شروع ہو تا ہے۔ تقاضا کیا جاتا ہے کہ تاریخ غیر جانبدار ہونی چاہیے، جبکہ حقیقت یہ کہتی ہے کہ کوئی بھی شخص سو فیصد غیر جانبدار نہیں ہو سکتا، تو پھر مورخ غیر جانبدار ہو کر کیسے لکھ سکتا ہے۔ تاریخی علمیت میں جانبداری بھی ملے گی اور عصبیت بھی۔ یہ دونوں عوامل تاریخ نویسی میں کہیں نہ کہیں ضرور چھلکے گے۔ وہ یا تو مذہبی تناظر میں ہو ں گے، یا پھر قومیت ، لسانیت و نسل پرستی کی صورت میں ۔ ہمیں مورخ جو تصویر کا رخ دکھائے گا اسے قبول کریں یا رد ، وہ ہماری صوابدید پر ہے لیکن اس کے لیے تاریخ کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ ہونی چاہیے ۔ ایک مشہور امریکی مورخ ہنری آدم کے مطابق ، "میں نے تاریخ پر بہت کچھ لکھا ہے مگر اس لیے نہیں کہ اس پریقین کروں ۔ اگر کوئی مجھ سے اختلاف کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ متفق ہونے پر تیار ہوں۔" عمومی طور پرتاریخ کو ماضی کے واقعات کے مطالعے کا نام دیا جاتا ہے ۔ انسانی سوچ و فکر، رویے، کردار ، تجربات ان سب کے بارے میں تاریخ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ لڈل ہارٹ کہتا ہے، "تاریخ انسان کی غلطیوں کا ریکارڈ ہے ۔ یعنی تاریخ ہمیں وہ مواد فراہم کرتی ہے کہ جس سے ہم اپنے آباؤ اجداد کی غلطیوں اور کو تاہیوں سے واقف ہو تے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ تاریخ میں ایک لامحدود ،وسیع انسانی تجربہ ہوتا ہے جو کہ انفرادی تجربوں سے زیادہ پھیلا ہوا اور مختلف اقسام کا ہو تا ہے۔مزید برآں ، تاریخ وہ علم ہے جو دوسرے تمام علوم کی اصلاح کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے جس کا دائرہ کار پھیلا ہوا ہے۔ اس میں زندگی کے تمام پہلو آجاتے ہیں۔ بحیثیت ایک معاشرتی علم ، اس کا مقصد انسانی تجربات اور غلطیوں سے سبق سیکھ کر معاشرے کی اصلاح کرنا بھی ہے ۔ "لیکن ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے یا اگر سیکھتے بھی ہیں تو اپنی پسند کے مطابق ۔ لڈل ہارٹ اپنی کتاب "ہم تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے " میں لکھتا ہے کہ "تاریخ سے ہم ان امور پر سبق سیکھتے ہیں جو ہمارے لیے پسندیدہ ہوں ۔ " دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم وہ تاریخ پڑھنا چاہتے ہیں جو ہماری پسند کے عین مطابق ہویعنی جو ہمارے نظریات اور عقائد سے متصادم نہ ہو۔

تبدیلی انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔ جمود کسی بھی صورت میں ہو انسان و معاشرے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ تاریخ ان دونوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے ۔ عرب مورخ ابن خلدون کے مطابق ،" تاریخ انسانی معاشرہ یا عالمی تہذیب اور اس میں رونما ہونے والے تغیر ات کی دستاویز ہے، مثلاً جنگیں ، امن معاہدے ، انقلابات، بغاوتیں ، قوموں اور تہذیبوں کا عروج و زوال وغیرہ۔" برطانوی مورخ آرنلڈ ٹائن بی بھی اسی طرح کے خیالات کا حامی ہے ۔ اس کے مطابق ، "حرکت پذیر انسانی معاملات کی تحقیق کا نام تاریخ ہے۔ " ایک اور برطانوی مورخ ای ایچ کار کی رائے کے مطابق، "تاریخ ماضی اور حال کے درمیان ایک مسلسل مکالمہ کا نام ہے۔" اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ماضی اور حال کے درمیان بالواسطہ اور بلاواسطہ تعلق ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مورخین حال کو ماضی کا آئینہ کہتے ہیں۔

تاریخ قوموں کی شناخت ہوتی ہے اور زندہ قومیں اپنی شناخت کبھی نہیں بھولتیں۔ہمارےیہاں تاریخی ناخواندگی بہت ہے ، جس کی وجہ سے تاریخ سے کھلواڑ کرنا آسان ہے۔تاریخ ایک جامع علم ہے جو ہماری تخیلاتی طاقت کو بڑھاتی ہے ۔ رادھا کرشن کے مطابق تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ مدمقابل کی تحقیر کی جا سکے ۔ خود کو اونچا اور دوسرے کو نیچا دکھایا جا سکے۔ یاد رہے کہ تاریخ صرف اور صرف قصے و کہانیوں میں ڈھل جا تی ہے اگر اس سے عملی طور پرسبق نہ سیکھا جائے۔ پھر وہ قصے و کہانیاں یا تو بچوں کو رات میں سلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں یاپھر محاذ پر جوانوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے۔ اپنے مضمون کا اختتام اس جملے پر کرتاہوں : "تاریخ کے دل سے عبرت کی آواز آتی ہے؛ بس سننے والا کان چاہیے۔ "

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد عظیم

ڈاکٹر محمد عظیم وفاقی جامعہ اردو کراچی کے شعبہ تاریخ عام میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ جامعہ کراچی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ پاکستان نیوی میں بطور مورخ 2006 تا 2009 تک خدمات سر انجام دیں۔ اسٹوری أف پاکستان نیوی 1971 تا 2000 (حصہ دوم) مرتب کی۔ اس کے علاوہ ساؤتھ ایشیا میگزین میں اسٹاف رائٹر کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں۔ فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، کونفلکٹ ریزولوشن اور میری ٹائم افیئرز کے موضوعات پر تحقیقی مقالے بھی لکھ چکے ہیں

Click here to post a comment