بارہ اکتوبر سنہ 1999ء کو جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پہ قبضہ کیا تو ملک پر قبرستان کا سا سکوت طاری ہوگیا۔ کسی کے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ اس فوجی بغاوت کے خلاف ایک لفظ تک منہ سے نکال سکے۔ تمام بڑے بڑے سیاسی رہنما خاموش تھے۔ نواز شریف، کو ان کے بھائی، شہباز شریف سمیت نظربند کردیا گیا اور کئی وزراء کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ایسے میں جنرل مشرف کی ایک تصویر اگلے دن کے اخبارات میں شائع ہوتی ہے جس میں انہوں نے اپنے بغل میں، دونوں جانب دو کتے دبوچے ہوئے ہیں۔ پھر اس کے اگلے دن وہ اخباری نمائندوں کے سامنے اس چیز کا اظہار فرماتے ہیں کہ کمال اتاترک ان کے ائیڈیل ہیں۔ ان دو چیزوں نے قوم کو ایک واضح پیغام دیا کہ اب ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں آچکی ہے وہ اسے اسلامی شناخت سے محروم کرکے ایک سیکیولر ریاست کی بنیاد ڈالنے والے ہیں۔
یہ سب دیکھ کر، مسلمانان پاکستان پر سکتہ کی سی کیفیت طاری ہوگئی، ہر طرف سکوت ہی سکوت۔ سناٹا ہی سناٹا۔ ایسے میں ایک مرد مجاہد نے میڈیا کے نمائندوں کو طلب کیا اور ان کے سامنے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ ’’اگر کسی کے ذہن میں یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پاکستان کو ترکی (ایک سیکیولر اسٹیٹ) بنائے گا تو اسے یہ بات اپنے ذہن سے نکال دینی چاہیے۔ جب تک ہمارے سر ہماری گردنوں پر باقی ہیں ہم کسی کو ملک کی اسلامی شناخت بدلنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ دوسرے دن کے اخبارات میں یہ بیان صفحہ اول پر، جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا۔ وقت کے آمر نے بھی اس کی حدت کو محسوس کیا لہٰذا اسے فوری طور پر ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا کہ میرا مقصد ہرگز ملک کی اسلامی شناخت کو بدلنے کا نہیں تھا بلکہ کمال اتاترک کو میں ذاتی طور پر اپنا آئیڈیل تصور کرتا ہوں۔
آج کے نوجوان، جن کی عمریں بیس تیس سال کے درمیان ہیں، شاید نہیں جانتے کہ یہ مردحْر کون تھا؟ جس نے جان کی پروا کیے بغیر، وقت کے آمر کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔ تو ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ یہ مرحوم قاضی حسین احمد تھے جنہوں نے موت کے سے گہرے سکوت کو توڑا اور ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر پھینک کر اس میں ارتعاش پیدا کیا۔ اس آمر نے سلیم صافی کے انٹرویو میں خود اعتراف کیا کہ تمام سیاستدانوں میں ایک بس قاضی حسین احمد جن کے ساتھ اس کے معاملات درست نہ ہو سکے. آج دنیا بدل چکی ہے اور ہر شخص کھلے یا دبے لفظوں میں، ظلم و استبداد کے خلاف بول سکتا ہے مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ قاضی حسین احمد ہی تھے جنہوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار بابنگ دہل یہ کہا کہ فوج کو سوچنا چاہیے کہ لوگ اب کور کمانڈرز کو ’’کروڑکمانڈرز‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ ان کا یہ بیان جب اخبارات کی زینت بنا تو میں نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ: ایسی جرأت اس شخص کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی جس کے دل میں سوائے اللہ کے کسی اور کا خوف نہ ہو۔
قاضی حسین احمد مرحوم کی کرشماتی شخصیت اسی وقت نمایاں ہو کر سامنے آگئی تھی جب وہ سینیٹ کے ممبر تھے۔ سینیٹ کے اجلاسوں میں ان کی تقاریر اور مختلف ایشوز پر اختیار کیا گیا مؤقف بڑا صائب اور جاندار ہوا کرتا تھا۔ تب تک وہ جماعت اسلامی کے امیر نہیں بنے تھے اور لوگ، جماعت اسلامی سے زیادہ قاضی حسین احمد کو جاننے لگ گئے تھے۔ سینیٹ میں ان کی آواز، مظلوم اور بے بس انسانوں کے لیے امید کی کرن ہوا کرتی تھی جبکہ ظلم و استبداد کے ایوانوں کے لیے ایک بھونچال اور زلزلہ۔ اسی لیے جب والد صاحب مرحوم نے ایک بار مجھ سے مشورہ چاہا کہ نئے امیر جماعت کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، بتاؤ میں کس کو ووٹ دوں؟ میں نے عرض کیا، جب قاضی حسین احمد جیسی شخصیت کا نام آپ کے سامنے ہے تو اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرا بھی یہی ارادہ تھا، بس میں تمہاری رائے جاننا چاہ رہا تھا۔
سنہ 1987ء میں جب انہوں نے پہلی بار جماعت کی امارت کا حلف اٹھایا تو سندھ کے شہر لسانی فسادات کی آگ میں بری طرح جل رہے تھے۔ تعصب کے بھڑکتے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انہوں نے ایک طرف’’ کاروان دعوت و محبت‘‘ کے نام سے پشاور تا کراچی ایک طویل مارچ کا انعقاد کیا تو دوسری طرف لاکھوں کی تعداد میں پوسٹرز، بینزر اور کتابچے شائع کروائے جن میں قرآن اور حدیث کی مدد سے انسان کے خون کی حرمت، اسلامی بھائی چارے اور امن و آشتی کو فروغ دینے والا مواد موجود تھا۔ اس آگ میں خود ان کی جماعت کے کئی قیمتی لوگ بھی جھلسے۔ ایک ماہ کے دوران انہیں کئی بار اپنے کارکنان کے جنازے پڑھانے کے لیے کراچی آنا پڑتا مگر پیغمبرانہ منہج کے امین اس عظیم شخص نے کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ہمیشہ اپنے کارکنان کو یہی تلقین کی کہ وہ اللہ کی ذات پر یقین رکھیں اور صبر کریں کہ اس کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔
پاکستان میں بہت سے سیاسی و مذہبی رہنما آئے مگر بلامبالغہ قاضی حسین احمد مرحوم جیسی شخصیت کہیں نظر نہیں آتی۔ ان کا وژن، ان کی بصیرت، ان کا انداز تکلم و تقریر، ہر چیز دلنشیں تھی۔ انہوں نے کبھی بھی مخالفین سے انتقام نہیں لیا۔ ان کی ساری جستجو اور جدوجہد ظلم کے نظام اور استبداد کے خلاف تھی۔ نواز شریف نے جب اپنے دور حکومت میں واجپائی کو ایک ایسے وقت میں مدعو کیا جب ہندوستانی حکومت نے کشمیر کے مظلوم اور نہتے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے تو قاضی حسین احمد مرحوم نے اس فیصلہ کی شدید مخالفت کی اور اپنے کارکنان کے ساتھ پرامن احتجاج کے لیے میدان میں آ موجود ہوئے۔ مگر شاہانہ مزاج رکھنے والے تخت لاہور کے تاجداروں کو یہ جرات کہاں ہضم ہونی تھی لہٰذا ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے اور لاہور کی سڑکوں نے وہ منظر دیکھا جو کبھی جلیاں والا باغ میں پیش آیا تھا۔ مہلک اور ممنوعہ قسم کی آنسو گیس کے ہزاروں شیل فائر کیے گئے۔ مرحوم قاضی حسین احمد، پیرانہ سالی اور دل کے عارضہ کے ساتھ ایک سڑک پر مقید ہوگئے۔ پولیس کی شیلنگ سے کئی کارکنان بے ہوش ہوگئے اور مرحوم قاضی حسین احمد کی حالت بھی غیر ہوگئی۔ پھر اسی حالت میں ان پر لاٹھیاں برساتے ہوئے گرفتار کرکے ٹرک میں ڈال دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی نوازشریف تھے جو قاضی حسین احمد کی جانب سے دی گئی سیڑھی کو استعمال کرتے ہوئے پہلی بار وزارت عظمیٰ تک پنہچے تھے۔ مگر قاضی صاحب مرحوم اس کے بعد جب بھی ان سے ملے، کبھی اس چیز کا شکوہ تک نہیں کیا۔ یہ ہوتا ہے بڑا آدمی اور اسے کہتے ہیں کشادہ دلی۔
ملکی سیاست میں ان کی شخصیت نمایاں ہو ہی چکی تھی مگر بعد میں وہ امت مسلمہ کے رہنما کے طور پر بھی سامنے آئے۔ آج جو لوگ ترکی کے صدر طیب اردگان کی قد آور شخصیت کو دیکھ مبہوت ہو رہے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدر طیب اردگان بھی مرحوم قاضی حسین احمد سے بہت متاثر تھے اور ان سے رہنمائی لیا کرتے تھے۔ اردگان سے قبل اربکان وہ شخصیت تھی جس نے قاضی صاحب سے فیض اٹھایا اور ترکی کے عوام سے ان کا تعارف کروایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ترکی کے دورے پر گئے تو لاکھوں لوگوں نے ان کا استقبال کیا اور ان کے اعزاز میں رکھے گئے جلسہ میں شرکت کی۔
پاکستان میں اس وقت جب نااتفاقی، انتشار اور رقابتوں کی سیاست عروج پر تھی، مرحوم قاضی حسین احمد نے تمام مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا اور مختلف مسالک کے علماء اور کارکنان نے ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ قوم نے اتحاد ، محبت اور اتفاق کے اس منظر کو اتنا پسند کیا کہ کے پی کے میں ایم ایم اے کی حکومت وجود میں آگئی۔ گویا کہ قوم کی طرف سے یہ ایک پیغام تھا کہ اگر دینی جماعتیں اپنے مسلکی اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے، متحد ہوجائیں تو قوم بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
پی ٹی آئی کے پرجوش کارکنان کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے لیڈر، عمران خان بھی قاضی حسین احمد مرحوم سے فیض یافتہ ہیں اور ان کی صحبت میں چند گھڑیاں گزارنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے، اسی لیے کئی بار ان سے ملنے کے لیے تشریف لے گئے۔ آج کے ظلم کے نظام ، کرپشن اور جاگیرداری کے خلاف عمران خان کا جو زوردار مؤقف آپ کے سامنے ہے یہ دراصل قاضی مرحوم کے جاندار مؤقف کا پرتو ہے۔
سنہ1987ء سے لے کر 2009ء تک پورے بائیس سال قاضی حسین احمد مرحوم نے، بحیثیت امیر جماعت اسلامی، قوم کے سامنے اپنا اجلا کردار پیش کیا۔ مگر جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ کہ ان 22 سالوں میں انہوں نے جماعت اسلامی سے کبھی بھی کوئی معاوضہ نہیں لیا اور اپنے چھوٹے سے کاروبار ہی پر اکتفا کیا۔ ان پر نہ کبھی کرپشن کا الزام لگا اور نہ پلاتٹ یا پرمٹ کے حصول کا۔ اللہ کا بندہ تھا، اللہ کے لیے کام کرتا تھا۔ ان کا سفید لباس اول تا آخر چمکتا دمکتا رہا۔ انہوں نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی اور ہمیشہ جوانوں کی طرح خود بھی متحرک رہے اور کارکنان کو بھی دوڑائے رکھا۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ بےنظیر (مرحومہ) اور نوازشریف میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں، ان کی اندرونی طور پر انڈراسٹینڈنگ ہے کہ باری باری اقتدار کے مزے لوٹیں گے۔ (آج جناب نوازشریف اور جناب زرداری صاحب کو ایک ساتھ کھڑا دیکھ کر مرحوم قاضی صاحب کی بصیرت یاد آ جاتی ہے)
قاضی حسین احمد نے خطہ کی مخصوص جغرافیائی سیاست اور اس کے باریک نکات سے قوم کو روشناس کروایا۔ انہوں نے بین الاقوامی سازشوں کے تاروپود کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیے۔انہوں نے امت مسلمہ کے تصور کو مہمیز دی اور جرات رندانہ کے ساتھ عالمی و ملکی استبداد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ وہ اقبال کے شاہینوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتے رہے۔ وہ اپنے بے قرار دل کے ساتھ، سونے والوں کو جگاتے رہے ۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں تو مجھے یہ احساس بڑی شدت کے ساتھ ہوتا ہے کہ قوم نے ان کو نہیں پہچانا اور نہ ہی ان کی قدر کی۔ کیا اللہ ہم سے نہیں پوچھے گا کہ ایک شخص اپنے اجلے دامن کے ساتھ مسلسل 22 سال تک تمہیں بیدار کرتا رہا، بتاؤ کیوں نہ تم نے اس کی پکار پر لبیک کہا؟ پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ قدرت والا تو جب پوچھے گا تب پوچھے گا، مگر قدرت کا جواب تو ہمارے سامنے ہی موجود ہے، وہ یہ کہ:
جب تم ایک نمبر قیادت کو چھوڑ کر دو نمبر لوگوں کو اپنا لیڈر بنا لو گے تو پھر حالات کا نقشہ وہی ہوگا جو آج تمہارے سامنے ہے۔ نہ تم اپنے گھروں میں محفوظ ہو، نہ دفتروں اور بازاروں میں۔ ان دونمبر لیڈروں کی جانب سے ملکی دولت لوٹ کر تمہیں بھوکا ننگا رکھنے اور اپنے محلات تعمیر کرنے کی سزا اس کے سوا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
جماعت کے مرکزی و ضلعی زمہ داران قاضی صاحب کی قدر کرتے تو ملک اور عوام کو زیادہ فائدہ ہوتا.