ایلن واٹس کی باتیں تو سننے کی ہوتی ہیں لیکن پڑھنے کا وہ لطف نہیں ہوگا جو سننے کا ہے۔ اس کی آواز دوا جیسی تاثیر رکھتی ہے۔ لیکن بہرحال یہ گفتگو جو ایلن واٹس نے کی، ایک تو مختصرتھی، اس لیے، اور دوسرا نوجوان والدین کے لیے بہت اہم تھی اس لیے، میں ترجمہ یہاں کررہاہوں:
ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں معلومات کی بھرمار ہے. ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات، رسائل، کتابیں ہر طرف سے دوسرے لوگوں کی زندگیوں کی جھلکیاں ہمیں متوجہ کرتی ہیں۔ ہم اکثر کسی اور کی جگہ ہونا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم سب کچھ جانتے ہیں، اور بہت کچھ جاننے پر مجبور ہیں۔ اس تمدن کی عجیب بات یہ ہے کہ سب نے اس بات پر صلح کر لی ہے کہ ہر دن پہلے دن جیسا ہی ہو، اور وہی کیا جائے جو کرنا "ضروری" ہو۔
بچے اپنے والدین کے کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں، لیکن اُنہیں اجازت نہیں ملتی کہ ساتھ جائیں۔ والد دفتر لے جا نہیں سکتا، ماں مصروف ہے کبھی کسی کلب میں، کبھی ووٹر لیگ میں۔بیٹی چاہتی ہے کہ ماں سے سیکھے کہ انڈا کیسے ابالا جاتا ہے، لیکن ماں کو جلدی ہے۔اس لیے بیٹی کو کھلونوں کا چولہا دے دیا جاتا ہے اور ایک نقلی بچہ، جو "وی وی" بھی صحیح نہیں کرتا۔ بیٹا اس سے بھی زیادہ ناخوش ہے کہ اس کا کھلونا بندوق کچھ مارتی ہی نہیں۔
شام تک، باپ کی آمد سے ذرا پہلے، گھر ٹوٹے ہوئے کھلونوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ماں اور بچوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے کہ سب کچھ الماری میں چھپا دیا جائے۔پھر بچوں کو "ٹی وی" کے ذریعے بے حس کیا جاتا ہے، اور ماں، جو تھک چکی ہے، فریزر سے کوئی چیز نکال کر کھانے کا انتظام کرتی ہے اور باپ کو دو مارٹینی دیتی ہے تاکہ اُسے فرق ہی نہ پڑے کہ کیا کھا رہا ہے۔یوں ہم بچے کی شخصیت کو ایک مسئلہ بنا کر ترتیب دیتے ہیں۔
قدیم زرعی تہذیبوں میں جیسے ہندوستان، چین، یا جاپان میں بچہ باپ کے پیشے سے مانوس ہوتا تھا۔ بڑھئی کا بیٹا بڑھئی بنتا، باپ بیٹے کا استاد ہوتا، تعلق گہرا ہوتا۔ لیکن ہماری تہذیب میں ہمیں نہیں معلوم کہ باپ کیا کرتا ہے۔ وہ کسی پراسرار دفتر یا فیکٹری میں جا کر "پیسہ بناتا ہے" ،یہی معلوم ہوتا ہے۔ بچہ نہ اس پیشے کا حصہ ہوتا ہے، نہ ماں، صرف "کما کر لانے والا" باپ ہوتا ہے، جس کے لائے ہوئے پیسے کا مطلب ہے، زیادہ ہو بس، کیسے آئے، کوئی پروا نہیں۔ یوں بچہ کسی ہنر یا فن کو بچپن سے سیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔
اسے ایک "ادارہ" بھیج دیا جاتا ہے جو اُس سے کہتا ہے کہ "تم سب کچھ بن سکتے ہو" ، لیکن وہ کچھ بھی نہیں بنتا، کیونکہ بچپن کی مہارت چھوٹ گئی۔ جاپان میں ایک وقت تھا کہ سات سال کا بچہ باپ کا شاگرد بنتا تھا۔ آج وہی بچہ سکول میں بھیجا جاتا ہے کہ کل کو "انشورنس سیلزمین" بنے۔ جب وہ جوان ہوتا ہے تب جا کر وہ کسی فن میں دلچسپی لیتا ہےمگر تب دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ حقیقی کاریگری تب ہی آتی ہے جب بچپن سے سیکھا جائے۔
ایک عظیم جاپانی بڑھئی نقشہ استعمال نہیں کرتا وہ آنکھ سے ناپتا ہے، پیچیدہ جوڑ آنکھ سے بٹھاتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں؟ اب وہ کاریگری نہیں خریدی جا سکتی۔ یہاں صرف "پلاسٹک کی نقل" ملتی ہے۔ ہم نے کام کو "پیشے" کے بجائے صرف "نوکری" بنا دیا ہے۔ ہندوستان میں ایک لفظ ہے: "سودھرما" یعنی "اپنا فطری کام"۔ یہی لاتینی لفظ "سوس" (sus) سے مشابہ ہے ، یعنی "آپ کا اپنا"، جسے ہم "ووکیشن" کہتے ہیں یعنی وہ پیشہ جو آپ کو فطری طور پر اپنایا ہوا لگے۔
اگر آپ کوئی کام صرف "پیسے" کے لیے کرتے ہیں تو وہ کبھی "سودھرما" نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر آپ ڈاکٹر اس لیے بننا چاہتے ہیں کہ طب آپ کو دلچسپ لگتی ہے، اور آپ کو لوگوں سے محبت ہے، تو پھر یہ آپ کا سودھرما ہے۔ اگر آپ مصور ہیں، تو آپ کو ہر حال میں تصویریں بنانی ہوں گی، پیسہ ملے یا نہ ملے۔ اگر آپ لکھاری ہیں تو لکھنا مجبوری ہوگا ،پیسہ ملے یا نہ ملے۔ یہی ہے "اپنا کام"، اپنی "راست بازی"۔
ہمارے تمدن میں ہمیں اتنی زیادہ "چوائس" دی گئی ہے کہ ہم اکثر فیصلہ نہیں کر پاتے . جیسے بہت زیادہ لمبا مینو دیکھ کر آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا کھائے۔ پھر آدمی ایک دن سماجی ترتیب سے نکلتا ہے، "کوئی نہیں" بن جاتا ہے۔ وہ جنگل کی طرف لوٹتا ہے، یعنی اس تمدن سے باہر نکل کر تنہائی میں، خود کو دریافت کرنے کے لیے، یہ جاننے کے لیے کہ وہ کون ہے، جب وہ بلکل اکیلا ہوتا ہے۔ اور جب وہ یہ جان لیتا ہے تو موت آتی ہے اور اُسے مارنے کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔
کیونکہ جب تک آپ اپنے "نام"، اپنی "ذات"، اپنے "کردار" سے چمٹے ہوئے ہیں، تب تک آپ کو مارا جا سکتا ہے۔ لیکن جب آپ خود کو کائنات سمجھنے لگتے ہیں تو موت آتی ہے، اور دیکھتی ہے کہ "یہ تو پہلے ہی فنا ہو چکا ہے"، لہٰذا مارنے کو کچھ نہیں ہوتا۔
ایلن واٹس (Alan Watts)
تبصرہ لکھیے