خدا سے بدگمانی پر قائم ایک پورا فلسفہ جس نے برصغیر پر حکومت کی ہے اور شاید آج بھی وہ خود کو مذہب ، تصوف ، دنیا بیزاری ۔۔۔ جیسے عنوانات کے پیچھے زندہ رکھنے کی جنگ لڑ رہا ہے ۔۔۔ اس فلسفے کا دین میں کیا حکم ہے ۔۔۔ اس سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے ہمارے دلوں پر حکمرانی کر رہا ہے ۔
زندگی تو درد دیتی ہے ، غم اور دکھوں سے کیا بھاگنا ۔۔ یہی تو دنیا کی حقیقت ہے ، اجی دنیا تو بے وفا ہوتی ہے ، بھائی دنیا کا مال و دولت ۔۔۔ اللہ والوں کو نہیں ملا کرتا ۔۔۔ اللہ والے تو فقیر اور مسکین ہوتے ہیں ۔۔۔ ذلت سہنے میں تو بلندی ہے ، اپنی عزت قائم کرنے کی جگہ یہ دنیا تھوڑی ہے ۔۔۔
اس چکر میں پچھلی نسل نے اپنا کچومر نکالا ، بچپن سے بے عزتی کرانے کو ولایت اور علم کی سیڑھی قرار دیا گیا ۔۔ قرآن کریم جیسی عزت والی کتاب تک کو پڑھنے کے لیے مولوی صاحب کے ڈنڈے ، دبکے ، بڑھکیں ۔۔۔ سہیں ، علم جیسی بلند کرنے والی نعمت کو پانے کے لیے کان پکڑے ، جسم کے نازک حصوں پر تشدد سہا ۔۔۔ فیملی جیسے تحفظ دینے والے سسٹم کے ہاتھوں تربیت اور بڑوں کے ادب کے نام پر ابیوز سہا ، نا انصافیاں برداشت کیں ۔۔
عزت سے اس محرومی اور ذلت آمیزی کو پھر مذہب کا تڑکا لگا کر ۔۔۔ لاشعور میں مذہب کو ایک خوفناک قانون اور جیل کی مانند ۔۔۔ مسلط کیا گیا ۔۔۔ اجی جہاں استاد کا ڈنڈا پڑے وہاں جہنم کی آگ نہیں چھوتی ۔۔۔ خاوند اور بڑوں کا ظلم و ناانصافی ۔۔۔ یہ تو پیار کرنے کا ایک انداز ہے ۔۔۔ جہاں ماں باپ شادی کریں وہیں برکت ہوتی ہے، اپنی من مانی تو جہنم و تباہی اور بے ادبی کا راستہ ہے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
آہ ! کاش کہ اسے خدا کے پاکیزہ اور عزت عطا کرنے والے دین سے نہ جوڑا جاتا ، جس خدا نے ظلم کو حرام قرار دیا ، مرد عورت ، چھوٹے بڑے ، امیر غریب ، کالے گورے ، استاد شاگرد ، بزرگ بچے ۔۔۔۔ سید کمہار ۔۔۔۔ سب کو اپنی ذات سے ڈرنے اور اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیا اور صرف اپنے نازل کردہ دین کو ہی ماننے اور تسلیم کرنے کے تقدس سے نوازا ۔ جس نے ہر مسلمان کی عزت کو خانہ کعبہ سے زیادہ مقدس قرار دیا اور اس کی پامالی کو بدترین گناہ بتلایا ۔
جو دین کہتا ہے کہ طاقتور بنو ، سستی سے پناہ مانگو ، کام کرو ، حلال کماؤ ۔۔ یہ عبادت ہے ، شادیاں کرو ، حلال مزے کرو ، پریشانی اور غم سے خدا کی پناہ مانگو ، اس سے عافیت کا سوال کرو ۔۔۔ پہلے دنیا مانگنے کی دعا سکھائی کہ دعا میں پہلے دنیا اور پھر آخرت کی بھلائیاں مانگو ۔۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنہ و فی الآخرۃ حسنہ !
جو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے کسی کو چھوٹے بڑے کی بنیاد پر نہیں چھوڑتا ، جو آباؤ اجداد کے دین ، روایات ، اخلاق ، نفسیات ، اطوار ، انداز ، رسومات پر فخر کرنے کو جاہلیت سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو کہ ان کا جو کچھ غلط تھا ۔۔۔ اسے چھوڑ دو ، اس سے نکلو ۔۔۔۔ اور جو حق ہے اس پر قائم رہو۔
ہم واپس آتے ہیں کہ جی زندگی تو پریشانیوں کا گھر ہے ، لہذا اس گھر میں چپ چاپ پڑے رہو ۔۔۔ اس میں سہولیات تلاش کرنا ۔۔۔ پریشانیوں سے نکلنے کے لیے کچھ سیکھنا ، قدم اٹھانا ، باؤنڈری لگانا ، بڑوں سے چلے آتے پیٹرنز کو ۔۔۔ چیک کرنا ، مال کو خدا کی نعمت کے طور پر محسوس کرنا ۔۔۔ یہ سب گمراہی ، دنیا داری ، بے دینی سا فیل ہوتا ہے ۔۔ ذلت و رسوائی میں پڑے رہنے سے اپنی صوفی نفسیات کو سکون ملتا ہے ۔
مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی حد تک اس سستی ، کاہلی ، رسوائی ، غم و الم کی زندگی میں مست جیتے ہیں ۔۔ بلکہ پھر اس پوری بیمار سوچ کو اپنے بچوں میں منتقل کیا جاتا ہے ۔۔ بچہ اچھا کھائے ، پھل کھائے تو برا لگتا ہے ، بس روٹیاں ہی توڑے تو اچھا لگتا ہے ، بچہ اپنے دفاع میں کھڑا ہو ، بولے ، ظالم کا ہاتھ پکڑے تو ہمیں بدتمیزی لگتا ہے اور مار کھاتا رہے تو ولی اللہ لگتا ہے ۔۔
تو بھائی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ سر سے پانی گزر جائے اور اگلی نسلوں میں معاملہ بغاوت یا نفسیاتی امراض کی صورت میں نکلے ۔۔۔ خدارا غور کریں ۔۔ اسلام کی خوبصورت اور رحم و کرم سے بھری تعلیمات ، عزت نفس اور مال و جان کی حفاظت کرنے والے دین کی طرف پلٹیں ۔۔۔ اللہ سے غموں میں جینا اور غموں پر صبر نہ مانگیں اس سے عافیت ، خوشی اور قوت کا سوال کریں اور ان چیزوں کے لیے دل میں اچھی فیلنگز کے لیے بھی اللہ سے دعا کریں ۔۔۔ کہ مولا ہمارے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے ہمیں اتنا صحت مند کر دے کہ ہمیں مسکراہٹوں ، پیسوں ، اور نعمتوں سے ۔۔۔ خوف اور نفرت آنے کی بجائے ۔۔۔ اللہ کی شکر گزاری اور اس کی حمد و ثناء کی خوشبو آئے ۔۔
اے خدا تجھ سے تیری عافیت ، آخرت کی بھلائیوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے حلال مال و دولت ، راحت و سکون ، کھلے گھر ، پھل و پھول ، کاروبار ، گاڑیوں ، پُرسکون زندگی ، اعلی لباس ، خوشبو ، تعارف ، اچھے مقام ، دوست ، خاندان سمیت ہر اس نعمت کا سوال کرتے ہیں کہ جو ہماری راحت کا ذریعہ بنے اور قوت و طاقت عطا کرے ۔۔ آمین یا رب
تبصرہ لکھیے