ہوم << روزنامچہ ، سرخ پھول - ثناء صادق

روزنامچہ ، سرخ پھول - ثناء صادق

15 جولائی 1992
سربیانکا

رات کا 1 بج رہا تھا ، سربرینیکا کی پہاڑی ہوائیں گاؤں کی اندھی گلیوں میں سرسراتی پھر رہی تھیں۔ کہنے کو لوگ اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے ، لیکن پورے گاؤں پر عجیب وحشت کا راج تھا۔ فدیلہ اپنے بستر پر لیٹی تسبیح پڑھ رہی تھیں، یہ ان کا روز کا معمول تھا ، نماز کے بعد تسبیح ہاتھ میں لیے لیے سو جانا، برابر میں ان کے شوہر سنان دنیا سے بےخبر سو رہے تھے۔
رات کے سناٹے میں یکایک ان کے لکڑی کے دروازے پر زور دار دستک ہوئی۔
بسم اللہ ۔۔۔
فدیلہ جلدی سے بستر سے کھڑی ہوئیں مبادا گھر والوں کی آنکھ کھل جائے
دستک کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ انھیں لگا کوئی باقاعدہ کسی ڈنڈے یا بھاری چیز سے دروازے کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ برابر والے کمروں سے فدیلہ اور سنان کے بچے خدیجہ اور المیر بھی جاگ چکے تھے۔
کون ہے ؟ فدیلہ نے کانپتی ہوئی آواز پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔ گھر والوں کی آنکھیں ایک دوسرے پر جمی ہوئی تھیں اور دلوں میں کسی انہونی کا دھڑکا ۔

ایک لمحے کو دروازے پر خاموشی ہوئی۔ پھر ایک تلخ اور حقارت آمیز مردانہ آ واز سنائی دی
دروازہ کھولو، ہم سربین فوج سے ہیں، گھر کی تلاشی لی جائے گی۔
فدیلہ نے سنان کی جانب بیچارگی سے دیکھا ، ان کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا ۔ فدیلہ نے خدیجہ کو المیر لے ساتھ اندر جانے کا اشارہ کیا ۔ خدیجہ کی شہد آنکھوں میں خوف کے سائے ہلکورے لے رہے تھے۔ المیر کے ساتھ باورچی خانے سے ہوتے ہوئے نیچے لکڑی کے چھوٹے سے تہ خانے میں جا کر اس نے اندر سے چٹخنی چڑھا لی اور جلدی سے اپنا اسکارف اور کوٹ نکال کر پہننے لگی۔ المیر نے بہن کے اشارے پر اپنا کوٹ اور جوتے چڑھا لیے۔ جو فدیلہ خاتون نے شاید ایسے ہی کسی وقت کے لیے وہاں سنبھال کر رکھےتھے ۔ لیکن اس سب کا اب کوئی فائدہ نہ تھا .
فدیلہ نے باہر کا دروازہ کھولا ، 6 باوردی جوان ہاتھوں میں رائفلیں اور اپنے غلیظ جوتوں سمیت فدیلہ کے گھر کی چوکھٹ پار کر کے اندر آ چکے تھے۔ ان کے کیپٹن کے اشارے پر سنان کے کندھے پر رائفل کا ایک بٹ پڑا ، فدیلہ کی چیخ اور سنان کے گرنے کی آواز سن کر ، خدیجہ نے بہتی آنکھوں کے ساتھ 8 سالہ المیر کو پکڑ کر خود سے اور قریب کر لیا۔ جو ابھی تک سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ لوگ سنان کو گھسیٹ کر باہر اپنی گاڑی میں ڈال رہے تھے ، فدیلہ کو ایک کونے میں بٹھا دیا گیا ۔

کپتان نے فدیلہ سے پوچھا
اور کتنے لوگ ہیں تمہارے گھر میں۔
فدیلہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے جگری سے کہا
جو ہے تمھارے سامنے ہے
کپتان نے ایک زوردار تھپڑ فدیلہ کے منہ پر مارا ، انکا ہونٹ پھٹ چکا تھا اور سر جا کر دیوار سے لگا
اگر یہ جھوٹ ہوا تو دیکھنا اپنا انجام ۔۔۔۔
فدیلہ کا چہرہ اپنی کھردری انگلیوں کے درمیان تقریبا مسلتے ہوئے کپتان نے بیدردی سے کہا اور ایک ٹھوکر مار کر اندر کی جانب لپکا۔
کیا تلاشی پوری ہو گئی ہے ، کوئی اور ہے اندر ؟ کپتان کی پاٹ دار آواز گونجی
جی سارجنٹ اور کوئی نہیں ہے۔
ہمم۔ لے چلو اس بڑھیا کو بھی۔

نیچے خدیجہ اور المیر لرزتے ہوئے سوچ رہے تھے، اپنے بچ جانے کا شکر منائیں یا اپنے ماں باپ کے آنے والے وقت کا ماتم ۔۔
باورچی خانے کی زمین پر پیروں کی دھمک سنائی دی۔ خدیجہ کا سانس بند ہونے لگا تھا. یہ سوچ کر کوئی اوپر ہے اور اگر انھیں نیچے ان کی موجودگی کا علم ہو گیا تو ۔۔۔ اس سے آگے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔ لبوں پر دعائیں اور ہاتھ المیر کے ہاتھ میں مضبوطی سے دیے وہ بس اس وقت کے گزرنے کا انتظار کر رہی تھی
یہ کیا ہے ۔۔ کپتان کی منحوس آواز بہت قریب سے سنائی دی خدیجہ کو۔ وہ شاید تہہ خانے کے بالکل اوپر کھڑا تھا ۔ ایک لمحہ اور گزرا اور خدیجہ اور المیر کو اوپر سے پڑنے والی ٹارچ کی روشنی میں اپنے بچ جانے کا امکان ختم ہوتا معلوم ہوا۔
کسی نے اندر جا کر دیکھا ؟ کپتان نے گرجدار آواز میں پوچھا ۔۔۔ جواب نہ پا کر اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو دھکا دے کر دور کیا اور نیچے اترنے لگا۔

سارجنٹ ۔۔۔ سارجنٹ ! باہر موجود فوجیوں نے شاید سلیوٹ مارا تھا۔ فدیلہ کا لکڑی سے بنا بوسیدہ گھر ان کے پیروں کہ دھمک سے لرز اٹھا ۔۔۔
نئے آنے والے نے پوچھا
کیا ہو رہا ہے یہاں، اتنی دیر سے ایک ہی گھر میں گھسے ہو تم لوگ کتنا وقت لگے گا۔
سارجنٹ میلوراد، بس ہم نکل ہی رہے تھے ۔ کپتان آ خری بار چیک کر رہے ہیں۔
ہمممم۔۔۔ میلوراد کے آنکھ کے اشارے سے فوجی فدیلہ کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکل گئے ، جو اب بے ہوش ہو چکی تھیں۔۔

کپتان اندر سے خدیجہ اور المیر کو گھسیٹتے ہوئے اوپر لے آیا تھا۔ اوپر لاتے ہی ایک زور دار تھپڑ اس نے خدیجہ کے منہ پر مارا ، اس کا اسکارف گھسیٹے جانے کی وجہ سے پہلے ہی خراب ہو چکا تھا، اب اس تھپڑ نے باقی کسر بھی نکال دی ، زمین پر گرتے ہی خدیجہ سسکیاں روکتے ہوئے اپنے بال ڈھکنے کی کوشش کرتی رہی . میلوراد کی نظریں خدیجہ کے اسکارف پر کڑھے ہوئے پھول پر تھیں۔۔ سرخ ڈائنتھس۔۔۔ اس علاقے کا سب سے خوبصورت پھول۔۔۔۔
اس نے دوسری بار خدیجہ کو کھڑا کر کے ایک اور تھپڑ مارنا چاہا کہ سارجنٹ کی سرد آواز پر رکنا پڑا
بس کیپٹن ، دونوں کو لیکر باہر جاؤ ، تمھیں اور بہت مواقع ملیں گے ۔۔
کیپٹن نے خدیجہ کو کپڑے کے اندر موجود بالوں سے پکڑا اور المیر کا ننھا سا ہاتھ پکڑ کر بیدردی سے اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا۔
باہر جاتے وقت خدیجہ کے منہ سے ایک چیخ، ایک آواز نہ نکلی تھی ، اس نے آخری محبت بھری نظر اپنے گھر پر ڈالی جسے وہ شاید آخری بار دیکھ رہی تھی ، اور اس کے بعد میلوراد پر جو پیچھے کھڑا کپتان اور ان دونوں کو باہر لے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا، کچھ ثانیے وہ شہد آنکھیں میلوراد پر رکی تھیں، ان میں موجود نفرت اور بے بسی دیکھ کر میلوراد ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گیا ، ایک ہی شخص ایک لمحے میں ، ایک ہی نظر میں محبت سے نفرت تک کا سفر کیسے طے کر سکتا ہے۔

جنوری 1995
ملٹری کیمپ ، تُزلہ

ٹھٹھرتی ہوئی شام میں تزلہ کے ملٹری کیمپ میں ایک خیمے میں خدیجہ اور کئی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ ، بندھے ہاتھ پیروں اور بد ترین حالت میں اوندھی پڑی تھی۔ اس کی شہد آنکھیں اب دھول اڑاتی تھیں۔ ہر وقت سر ڈھک کر رکھنے والی خدیجہ جس حال میں اس وقت کیمپ کے سنگللاخ فرش پر پڑی ہوئی تھی. روئے زمین پر کوئی شخص اس کی تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا، سانسیں بس چل رہی تھیں، کتنے ہی جسم اس خیمے میں ایسے بھی موجود تھے جن کی روحیں کب کی ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھیں۔ لاشوں اور زندہ جانوں میں کوئی فرق نہیں رہا تھا ۔ سربین فوجیوں نے بھی سربرینیکا سے قید کی جانے والی ہر لڑکی کے ساتھ وہی کیا جو اس دنیا میں آدمی کا بنایا ہوا دستور ہے۔ کچھ فوجی روٹین کے مطابق الٹ پلٹ کر زندوں کو مردوں سے الگ کر رہے تھے تا کہ ڈیڈ باڈیز کو ٹھکانے لگا کر کیمپ کا صفایا کر سکیں.

باہر سے صدا آئی کہ براتونکا سے کچھ نئے قیدی یہاں منتقل کیے گئے ہیں، ان کے انتظامات دیکھنے کے لیے قافلے کے ساتھ آئے کمانڈنگ افسر نے سب کو طلب کیا ہے۔ یہ کام جوں کا توں چھوڑ کر تمام فوجی باہر کی جانب لپکے ۔ باہر ڈیوٹی پر کھڑے گارڈز کو چوکنا رہنے کی ہدایت کی جیسے یہ بے جان لاشے ابھی اٹھ کر ان کڑیل جوانوں پر حملہ آور ہو جائیں گے۔

فدیلہ خاتون اس قافلے کا حصہ تھیں۔ انھیں پتہ چلا تھا کہ تزلہ کے کیمپ میں بطور خاص تمام تر کم عمر لڑکیوں کو رکھا جاتا رہا ہے اور پھر انھیں مختلف کیمپوں میں "حسب ضرورت" بھیجا جاتا ہے۔ وہ خدا سے دعا گو تھیں کہ کاش ان کی نور نظر ان کے جگر کا ٹکڑا یہاں انھیں مل جائے۔ جس بھی حالت میں سہی وہ ایک بار اپنی بیٹی کو زندہ دیکھنا چاہتی تھیں۔ خدا نے شاید ان کی دعا سن لی تھی۔

تزلہ کے پرانے افسر نے نئے آنے والے کمانڈنگ افسر کو چارج دیا ، سننے میں آیا تھا کہ نیا افسر باقی سربینز کے مقابلے میں کافی رحمدل انسان ہے۔ اس کے ماتحت بھی اسی وجہ سے بہت سیدھے چلتے تھے۔ براتونکا میں قیدی عورتوں کے لیے افسر نے اپنے اختیارات استعمال کر کے ایک سلائی کڑھائی سینٹر بھی بنوا دیا تھا ، جہاں خواتین مختلف فنون لطیفہ بنایا کرتیں اور سربینز انھیں شہروں میں بھجوا کر فروخت کرواتے۔ ہر نئے کپڑے پر پھول بوٹے بناتے وقت فدیلہ خاتون کے دماغ میں صرف خدیجہ کا خیال ہوتا۔ ان کی پھولوں سے زیادہ نازک اور پیاری بیٹی۔

کمانڈنگ افسر نے فوجیوں کو طلب کر کے کیمپ میں موجود قیدیوں کی لسٹ منگوائی ، کچھ بنیادی احکام صادر کیے اور واپس اپنے کیمپ میں چلا گیا۔ شام ڈھل چکی تھی، اگلا دن بہت طویل ہونے والا تھا ۔ آفیسر کو بہت سے اہم امور اس کیمپ میں نمٹانے تھے۔

اگلے کچھ ہفتے ایسے ہی گزر گئے۔ فدیلہ خاتون کو اتنی مہلت نہ ملی کہ وہ آزادانہ کیمپ میں گھوم پھر کر اپنی بیٹی کا پتہ چلا سکتیں۔ کیمپ کی روٹین بہت سخت ہوتی۔ دن بھر شدید محنت والے کام لیے جاتے ، کھانے میں اتنا ملتا جس سے بس سانسیں چل سکیں ۔ نئے افسر کے آنے سے کم سے کم سربین فوج کی بربریت میں کمی ضرور آئی تھی ۔ کیمپ کے بیماروں کے علاج میں بہتری کی گئی۔ کھانا پہلے سے کچھ بہتر ملنے لگا تھا۔ اچھا کام کرنے پر اجرت کے طور پر شہد ، گرم روٹی اور ایسی آسائشات بھی فراہم کی جاتیں۔ فدیلہ خاتون نے اپنی سلائی کڑھائی جاری رکھتے ہوئے اچھی اجرت میں ملنے والے دودھ ، شہد سے کیمپ میں اتنی دوستیاں ضرور بنا لی تھیں اس ایک مہینے میں جس سے انھیں اپنی بیٹی کا سراغ ملنے میں آسانی ہوتی۔

کمانڈنگ افسر کا وہی روٹین تھا۔ کام اور کام کے بعد اپنے کیمپ میں جا کر آرام ۔ فوجی حیران تھے کہ یہ کس قسم کا افسر ہے نہ شراب نہ شباب لیکن کیا کر سکتے تھے تھا تو وہ ان کا افسر ہی۔

گزرتے دنوں میں فدیلہ کی خدیجہ سے ملاقات ہو ہی گئی۔ موت کے منہ سے واپس آنے والی خدیجہ اپنی ماں کو دیکھ کر خوشی سے بے حال ہوگئی تھی۔ گو کہ ان کے خیمے الگ الگ تھے اور شروع میں انھیں چھپ چھپ کر ملنا پڑتا تھا۔ 7 ماہ ایسے ہی گزارنے کے بعد خدا ان پر مہربان ہوا۔ فدیلہ خاتون اور ان جیسی عمر والی خواتین کو دیکھتے ہوئے ان کی ڈیوٹی فوجیوں کے کمرے اور خیمے صاف کرنے پر لگائی گئی۔ فدیلہ خاتون کی خوش قسمتی کہ کمانڈنگ افسر کا کمرہ ان کے نصیب میں آیا۔ اچھے کام کی بدولت جلد ہی انھیں یہ موقع مل گیا کہ وہ افسر سے اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے کی اجازت حاصل کر سکیں۔ گو کہ عمومی حالات میں یہ ناممکن تھا خاص کر سربین بربر فوجی کیوں کر ایسی مراعات کسی کو دینے لگتے۔ لیکن شاید خدا نے ان کے حق میں یہ لکھ رکھا تھا۔

دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں بدل گئے۔ خدیجہ کی طبیعت بحال ہوتے ہوتے بہتر ہو گئی۔ کیمپ کے ڈاکٹر سے اسے کام کرنے کا پروانہ بھی مل گیا۔ کیمپ کے آدمی جنگلوں میں لکڑیاں کاٹتے اور عورتیں ان بڑی لکڑیوں کو چھوٹے ٹکڑوں میں، جو بعد میں فوجیوں کے کمرے اور خیمے گرم رکھنے اور کھانا پکانے کے کام میں آتے۔ خدیجہ کی ڈیوٹی بھی یہی تھی۔ سربین فوجیوں کی نگرانی میں روز جنگل میں جانا ، کم سے کم کیمپ کی گھٹی ہوئی ہوا میں سانس لینے سے بہتر تھا۔ کبھی آنکھ بچا کر خدیجہ جنگلی پودوں اور پھولوں کے ساتھ وقت گزارا کرتی جو سربیانکا میں اس کا سب سے پسندیدہ کام تھا .

اتوار کا دن تھا ، معمول کے مطابق کلہاڑوں کی آوازیں جنگل میں گونج رہی تھیں۔ بیچ بیچ میں کام رکنے یا ہلکا ہونے پر سربین فوجیوں کے ہنٹر ، لاٹھیاں اور مغلظات بھی فضا میں سنائی دیتے۔ دور سے ایک فوجی دوڑتا ہوا آیا کمانڈنگ افسر جنگل کے دورے پر نکلا ہے ، دیکھنا چاہتا ہے کام کیسا ہو رہا ہے۔ سربین فوجیوں نے فورا اپنی اپنی جگہیں سنبھالیں، پہلے سے زیادہ مشاقی اور مہارت سے کام کرنے والوں پر نظر رکھنی شروع کی ۔ ڈانٹ پھٹکار کی آوازیں پہلے سے زیادہ تیز ہو گئیں۔ خدیجہ کے سر پہ تعینات فوجی نے رائفل کے اشارے سے اسے اوپر جانے کا کہا جہاں مزید لوگوں کی ضرورت تھی۔ خدیجہ اپنی پہلی والی جگہ چھوڑ کر اوپر چلی گئی۔ اسے اپنی ماں سے پتہ چل چکا تھا کہ کمانڈنگ افسر نے کیسی مہربانی دکھا کر ان دونوں ماں بیٹی کو ساتھ رہنے کی اجازت دی، کیمپ کے حالات میں جو بہتری ، افسر کے آنے کے بعد آئی تھی وہ بھی حوصلہ افزا تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی ان بربر سربین فوجیوں میں کون ایسا خدا ترس آ گیا ۔

اوپر جا کر اس نے کام دوبارہ شروع کیا۔ یہاں کی لکڑی سخت اور مشکل سے کٹنے والی تھی ۔ خدیجہ کے نازک ہاتھوں میں وہ طاقت نہیں رہی تھی، اس لیے اسے کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ذرا سستی دکھانے پر رائفل کا بٹ ، گندی گالیاں اور فوجیوں کی غلیظ حرکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ۔ وہ حتی المکان دھیان اور تیزی سے کام میں جتی رہی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس کی نظر بڑے تنے کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے پودے پر پڑی ۔۔۔ اس کے اشتیاق نے ایک لمحے کو فوجیوں کا ڈر بھی بھلا دیا۔ جو فی الحال آس پاس کہیں نظر نہیں آرہے تھے، شاید راؤنڈ لیتے ہوئے آگے پیچھے ہوئے تھے۔

اس نے کلہاڑی وہیں چھوڑی اور تنا پھلانگ کر دوسری جانب کود گئی۔۔۔ اس کے سامنے سرخ ڈائنتھس جگمگا رہے تھے ، بالکل سرخ موتیوں کی طرح ۔۔۔ خدیجہ بے ساختہ گھٹنوں پر گری اور ہاتھوں میں پھولوں کے گچھے کو بھر کر ایسے بوسہ دیا جیسے وہ دنیا کا سب سے قیمتی اور پاکیزہ خزانہ ہو ۔ جنت سے آیا ہوا پھول۔۔۔ خدیجہ کو اندازہ نہیں ہوا کہ اس کی شہد آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے ڈائنتھس کے پنکھ مزید لال کر دیے تھے ۔۔ سربیانکا سے نکلنے کے بعد پہلی بار وہ اپنے پسندیدہ پھولوں کو دیکھ رہی تھی ، انھیں ہاتھوں میں لیکر چوم رہی تھی ، آزادانہ ۔۔۔ خدیجہ کی خوشی کا کوئی عالم نہیں رہا تھا۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اگر فوجیوں میں سے کسی نے اسے دیکھ لیا تو اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ۔۔۔

"یہ کیا ہو رہا ہے لڑکی"
پیچھے سے آنے والی کرخت آواز نے اس کے خوابوں کی دنیا کو مسمار کر دیا۔ ایکدم جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور خوفزدہ ہو کر پیچھے پلٹی ، گھوم کر سامنے آنے والے فوجی نے شاید تھپڑ مارنے کے لیے ہوا میں ہاتھ بلند کیا۔ خدیجہ وحشت زدہ ہرنی کی طرح پیچھے ہٹی۔
"رک جاؤ سولجر "
ٹھہری ہوئی آواز نے فوجی کا ہوا میں معلق ہاتھ واپس گروا دیا۔
یس سر۔۔ جس مؤدبانہ انداز سے فوجی اٹینشن کھڑا تھا، اس سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ کہنے والا کسی اعلی عہدے پر فائز ہے۔
گھٹنوں پر گری ،لرزتی کانپتی خدیجہ جس کے ہاتھ میں سرخ ڈائنتھس کا ایک پھول رہ گیا تھا ، نے سر اٹھا کر اپنے محسن کو دیکھنا چاہا ، پیچھے سے پڑنے والی سورج کی سنہری کرنوں نے کہنے والے کے گرد روشنی کا ہالہ بنا دیا تھا۔ خدیجہ کی آنکھیں چندھیانے لگیں، وہ دیکھ نہیں پائی ۔
ساتھ کھڑے دوسرے سارجنٹ نے سختی سے کہا
لڑکی ، کھڑی ہو اور واپس جا کر کام کرو اپنا ۔
خدیجہ سرعت سے کھڑی ہوئی اور کسی سزا کے نہ ملنے پر شکر مناتی، بھاگتی ہوئی واپس لوٹ گئی۔

سورج کے سنہرے دھندلکے میں گُم ، کمانڈنگ آفیسر میلوراد کی نظریں ایک بار پھر تنے کے قریب اُ گے ، سرخ ڈائنتھس کے پودے پر تھیں۔۔۔ اور ذہن میں شہد آنکھیں جگمگا رہی تھیں جن کی وجہ سے میلوراد نے ہر ممکن کوشش اور سفارشیں لگوا کر تزلہ کے اس کیمپ میں اپنا ٹرانسفر کروایا تھا ۔ کئی ماہ کے جان لیوا انتظار کے بعد قدرت نے اسے اس ساری محنت کا پھل دے ہی دیا تھا.
اونچے درختوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی سورج کی روشنی میں، پھٹے ہوئے لبادے میں گھٹنوں کے بل بیٹھی ، شہد آنکھوں سے موتی اگلتی ، سرخ ڈائنتھس کے عشق میں گرفتار وہ لڑکی ۔۔۔ میلوراد اس منظر کو کبھی نہیں بھولنا چاہتا تھا ۔ کھلے جنگل کی تازہ ہوا میں نجانے کیوں اسے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔
چلو سارجنٹ، باقی دورہ کل کریں گے۔
یہ کہ کر سارجنٹ کی بات سنے بغیر میلوراد تیزی سے واپس پلٹ گیا تھا، اپنے کیمپ کی طرف۔

نومبر ، 1996
سربیانکا
خدیجہ اور فدیلہ کو تزلہ کے اس کیمپ میں بہت وقت ہو چکا تھا ۔ سنان اور المیر کا کیا ہوا ،وہ زندہ بھی تھے کہ نہیں یہ پتہ چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا ۔ سننے میں آیا تھا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے ، بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت سے ڈیٹون پیکٹ سائن ہو گیا ہے اور اب تمام تر قیدیوں کو واپس بھیجنے کے احکام آنے والے ہیں۔ باقی قیدیوں کی طرح دونوں ماں بیٹی بھی پر امید ہو گئیں کہ شاید یہاں سے زندہ واپس جانے کا بہانہ مل ہی جائے ، شاید ان کی تکلیفوں کے دن ختم ہو ہی جائیں۔ یہی سوچتے سوچتے نومبر آ گیا اور بالآخر قیدیوں کی کانٹ چھانٹ کر کے انھیں واپس ان کے گھروں کو بھیجنے کا پروانہ مل گیا۔ کئی دنوں، ہفتوں کے سفر کے بعد فدیلہ اور خدیجہ اپنے گھر پہنچنے والے تھے۔ سربیانکا میں سیف کیمپ بنایا گیا تھا جہاں واپس لوٹنے والے مسلمان بوسنین آزادی کے ساتھ رہ سکتے تھے۔ سربین افواج اور ان کی مداخلت کے بغیر۔ بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب فدیلہ اور خدیجہ نے سربیانکا کی سر زمین پر قدم رکھا۔ سنان اور المیر کی موت کی خبر انھیں سربیانکا کے راستے میں مل چکی تھی ۔ اس گھر میں واپس آنا جہاں کبھی وہ ایک خوبصورت خاندان کے طور پر رہتے تھے ، بہت اذیت ناک تھا ۔ لیکن آزادی کا احساس اور ماں بیٹی کو ایک دوسرے کا ساتھ ان کی رب کے آگے شکر گزاری کا باعث بن گیا تھا۔

کانپتے پیروں سے دونوں نے اپنے گھر کی گلی کا موڑ کاٹا ۔۔۔ ان کی آنکھوں کے سامنے وہ سفید دروازہ تھا جسے 4 سال پہلے سربین ظالم فوجیوں نے آدھی رات کو توڑ کر ان کی پوری زندگی کو برباد کر ڈالا تھا۔ بھیگی آنکھوں اور سہل قدموں سے چلتے ہوئے دونوں ماں بیٹی دروازے تک آئیں۔
دروازے پر پڑا سنہری تالا ، جس کی چابی سربین سیف زون والوں نے فدیلہ کو یہاں آتے ساتھ ہی پکڑا دی تھی۔۔۔ اور اور ۔۔۔ اس سفید دروازے کی کنڈی میں نفاست سے ٹنگے ہوئے چند پھول۔۔۔ سرخ ڈائنتھس! نجانے کون انہیں اس عالم میں بھی خوش آمدید کہنا چاہ رہا تھا۔
خدیجہ کا صبر جواب دے گیا ، وہیں زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر شاید اس نے اپنے 4 سالوں کا سارا غبار نکال دیا تھا۔ وہ لڑکی جو گھر سے فوجیوں کے گھسیٹتے جانے پر نہ روئی ، اپنے ساتھ پیش آنے والی زیادتیوں پر جس کی آنکھ سے ایک آنسو نہ ٹپکا ، موت کے منہ میں جا کر بھی اس نے ثابت قدمی نہ چھوڑی ، آج اپنے گھر کے دروازے پر چند سرخ پھولوں نے اس کے ضبط کے سارے بند توڑ دیئے۔ فدیلہ نے اپنی بیٹی کو سہارا دے کر اٹھایا اور اندر داخل ہوئیں۔ دروازہ بند ہو چکا تھا ۔ سرخ ڈائنتھس گھر کے مکینوں کے ساتھ اندر جا چکے تھے ، اپنے اصلی مقام تک پہنچ گئے تھے۔ دور گلی کے کونے سے جھانکتے ہوئے لمبے چوڑے شاندار قد و قامت والے شخص نے اپنا لمبا کوٹ برابر کیا، سر پر موجود ہیٹ کو مزید جھکایا اور نم آنکھوں کے ساتھ مسکراتا ہوا واپس پلٹ گیا۔

دسمبر 2000
زغرب ، کروایشیا
گروچنی قبرستان
اونچے لمبے قد کاٹھ والا خوبصورت جوان ایک قبر پر کھڑا تھا ۔ اس کے سیدھے ہاتھ میں بڑا سا سوٹ کیس ، جیسے کسی سفر پر جانے کی تیاری میں ہو ، اور الٹے ہاتھ میں پھولوں کا ایک گل دستہ۔۔۔ سرخ پھول، موتیوں جیسے، سورج کی روشنی میں چمکتے ہوئے .... سرخ ڈائنتھس! اس علاقے کے سب سے خوبصورت پھول!
کچھ دیر نوجوان وہاں کھڑا خود سے باتیں کرتا رہا۔ اور پھر سرخ ڈائنتھس کے پھولوں کا وہ گل دستہ اور کاغذ کا ایک ٹکڑا قبر کی مٹی پر رکھ کر واپس ہو لیا۔ قبر پر ایک اونچے لمبے درخت کا سایہ تھا ، جس کہ شاخوں سے دھوپ چھن چھن کر آ رہی تھی۔ قبرستان کے دروازے سے پلٹ کر ایک بار اس نے دوبارہ وہ منظر اپنی آنکھوں میں مقید کیا تھا شاید ، گہری سانس کے ساتھ سرخ پھولوں کی خوشبو اپنے اندر اتاری اور مسکراتا ہوا باہر کی جانب ہو لیا ۔

قبرستان کے رکھوالے نے اس عجیب شخص کو دور سے دیکھا اور پھر قبر تک پہنچ کر اس کا لکھا ہوا کاغذ کا ٹکڑا اٹھا کر پڑھنے لگا ۔
"Mater, Ispunio sam obećanje dano s tobom. Crveni Dianthus više nikada neće biti rastrgan"
"ماں ، میں نے آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔ سرخ ڈائنتھسس کو اب کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی"
-----‐-------------

(بوسنیا ہرزگوینا، یورپ کے شمالی سمت میں واقع ایک چھوٹی سی آزاد ریاست ہے۔ اس ریاست کا شمار بالکان ریاستوں میں سے ہوتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہا کرتی تھی اور اب بھی مقیم ہے۔ یہ خطہ دنیا کے بے پناہ خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے لیکن مسلمانوں کے لیے ایک تاریک ریاست بھی ۔ 1991 سے لیکر 1996 تک یہاں سربین حکومت نے کھلے عام مسلمانوں کا خون بہایا اور قتل عام کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سربیا اور یوگوسلاویہ پبلکن آرمی نےاس کام میں ان کا پورا پورا ساتھ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے ہولوکاسٹ کے بعد یہ دنیا کی تاریخ کا وہ دوسرا سیاہ باب ہے جسے دنیا بھر میں مسلمانوں کی نسل کشی/قتل عام (Ethnic cleansing /Genoside/Massacre) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس جنگ کا مقصد زمین کا حصول اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ یہاں کے رہنے والوں نے جس جس طرح کے مظالم سہے ہیں، اور جیسے انھیں شہید کیا گیا، اس کی داستانیں بہت الم ناک ہیں۔ یہ کہانی محض فکشن کے طور پر اس پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ اللہ ان تمام بوسنین مسلمانوں کہ مغفرت فرمائے اور انھیں جنت میں اعلی مقام نصیب کرے ان شاءاللہ آمین)