ہوم << غزہ کا نوحہ اور اقوام عالم کی بے حسی - آصف رندھاوا

غزہ کا نوحہ اور اقوام عالم کی بے حسی - آصف رندھاوا

دنیا میں بعض سانحات اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ انسان لفظوں میں ان کی شدت کو بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ غزہ ان دنوں ایک ایسا ہی سانحہ بن چکا ہے۔ وہ علاقہ جو کبھی فلسطینی شناخت، مزاحمت اور امید کا مرکز سمجھا جاتا تھا، آج مکمل طور پر تباہ حالی، لاشوں، دھوئیں، چیخوں اور ملبے کی تصویر پیش کر رہا ہے۔

اسرائیلی جارحیت نے اسے نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے کھنڈر بنایا بلکہ انسانی اعتبار سے بھی موت کی وادی میں تبدیل کر دیا ہے۔اکتوبر 2023 میں اسرائیل نے جس بڑے پیمانے پر بمباری شروع کی، وہ آج اپریل 2025 تک تھمی نہیں۔ مسلسل 18 ماہ سے جاری اس جنگ نے 52 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔ ان میں 13 ہزار معصوم بچے شامل ہیں جنہوں نے کھلونوں سے کھیلنا تھا، کتابیں پڑھنی تھیں اور خواب دیکھنے تھے۔ 11 ہزار خواتین اور بزرگ بھی شہید ہو چکے ہیں جن میں وہ مائیں شامل ہیں جو اپنے بچوں کو بھوکا دیکھ کر تڑپتی رہیں، اور وہ دادا دادی جو پناہ کی تلاش میں در بدر پھرے۔

ہر دن غزہ میں اوسطاً 300 لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ یہ تعداد محض اعداد نہیں بلکہ انسانوں کی بربادی، خاندانوں کی تباہی، اور نسلوں کی بیخ کنی ہے۔ غزہ کی زمین جو پہلے ہی محدود اور محصور تھی، اب اس پر نہ کوئی محفوظ جگہ بچی ہے، نہ کوئی چھت۔ اسکولوں پر بمباری ہوئی، اسپتالوں پر میزائل داغے گئے، مساجد بھی محفوظ نہ رہیں حتیٰ کہ جنازے تک نشانہ بنائے گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 16 لاکھ سے زائد افراد اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں ہزاروں حاملہ خواتین، نومولود بچے، معذور افراد اور بزرگ شامل ہیں جنہیں نہ صرف بمباری سے بچنا ہے بلکہ بھوک، پیاس، بیماری، سردی اور گرمی سے بھی لڑنا ہے۔ انسانی راہداریوں پر حملے کر کے اسرائیل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس جنگ کا مقصد محض عسکری کامیابی نہیں، بلکہ پورے فلسطینی وجود کو مٹانا ہے۔

خوراک کی قلت کا عالم یہ ہے کہ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق 95 فیصد خاندان فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ صرف ایک ہفتے میں غذائی قلت سے پانچ بچے جاں بحق ہوئے ہیں، جبکہ ہزاروں بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔ صاف پانی نہ ہونے کے باعث ہیضہ، اسہال، گردوں کی بیماریاں، جلدی انفیکشن اور دیگر وبائیں عام ہو چکی ہیں۔ بچے گندا پانی پینے پر مجبور ہیں، مائیں آلودہ کھانے سے دودھ خشک ہونے کی شکایت کر رہی ہیں، اور کئی بچے دودھ کی تلاش میں دم توڑ چکے ہیں۔ طبی صورتحال اس سے بھی زیادہ المناک ہے۔ غزہ کے 36 بڑے اسپتالوں میں سے 30 یا تو مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں یا محدود سہولیات پر کام کر رہے ہیں۔

اسپتالوں پر براہ راست حملے کیے گئے۔ الشفا، ناصر، انڈونیشین، رنتیسی اسپتال — سب کھنڈر بن چکے ہیں۔ اسپتالوں کے اندر مریضوں کو فرش پر لٹایا جاتا ہے، ڈاکٹر موم بتیوں کی روشنی میں آپریشن کرتے ہیں، ٹانکے معمولی دھاگے سے لگائے جاتے ہیں، اور مرہم پٹی کے لیے کپڑے میسر نہیں۔ دفن کے لیے زمین کم پڑ گئی ہے۔ اجتماعی قبریں کھودی جا رہی ہیں جن میں بچوں، عورتوں اور مردوں کو ایک ساتھ دفن کیا جا رہا ہے۔ میتوں کی شناخت تک ممکن نہیں رہی۔ کئی جگہوں پر تو لاشوں کو دفنانے سے پہلے کیڑے لگ چکے ہوتے ہیں کیونکہ کفن بھی نایاب ہو چکا ہے۔

سب سے زیادہ شرمندگی کی بات مسلم دنیا کی خاموشی ہے۔ فلسطین کا المیہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن اس بار کی شدت اور ہولناکی ایسی ہے کہ ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے. ظلم کی تاریخ، خاموشی کی تاریخ، بے حسی کی تاریخ۔ سعودی عرب، مصر، امارات، قطر، ترکی، انڈونیشیا پاکستان سب نے زبانی مذمت ضرور کی، لیکن کوئی بھی ملک عملی اقدام کی طرف نہیں آیا۔ اسرائیل کے ساتھ تجارت بند نہیں ہوئی، سفیروں کو واپس نہیں بلایا گیا، کسی عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف کیس دائر نہیں کیا گیا۔ چند اجلاس ہوئے، کچھ قراردادیں آئیں، لیکن فلسطینی عوام کی حالت پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا کردار بھی اس بحران میں مکمل ناکام نظر آتا ہے۔ ہر روز ایک نیا بیان آتا ہے، ایک نئی تشویش کا اظہار ہوتا ہے، لیکن زمین پر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کے اسکولوں کو نشانہ بنایا، میڈیا کے نمائندوں کو قتل کیا، اور حتیٰ کہ امدادی قافلوں پر حملے کیے۔ ورلڈ سنٹرل کچن، عالمی ادارہ صحت، ریڈ کراس — سب کے کارکن شہید ہو چکے ہیں۔ لیکن کسی بھی بڑے عالمی فورم نے اسرائیل پر پابندی عائد نہیں کی، نہ اسے کسی تحقیقاتی کمیشن کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکہ کی حمایت اسرائیل کے لیے آکسیجن بن چکی ہے۔ 14 ارب ڈالر کی نئی فوجی امداد، سلامتی کونسل میں ہر قرارداد کا ویٹو، اور اسرائیل کے "دفاعی حق" کی مسلسل گردان — یہ سب اس قتل عام کو قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہیں۔ امریکی صدر، وزیر خارجہ، اور کانگریس سب ایک ہی بیانیے پر متفق ہیں کہ اسرائیل کو حق حاصل ہے، لیکن فلسطینیوں کا کوئی حق نظر نہیں آتا۔ یہ وقت ہے جب انسانیت کا امتحان ہے۔ اب صرف غزہ کی بات نہیں، اب بات پوری دنیا کے ضمیر کی ہے۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، لیکن اگر ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے تو وہ ظلم صرف بڑھتا ہے۔

اگر آج دنیا نے خاموشی اختیار کی، تو کل یہ خاموشی کسی اور خطے میں کسی اور قوم کے لیے تباہی کا سبب بنے گی۔ یہ ایک لمحہ ہے جس میں دنیا کو خود سے سوال کرنا ہو گا — جب غزہ جل رہا تھا، ہم کہاں تھے؟ اگر اس سوال کا جواب نہ دیا گیا، تو تاریخ خاموش نہ رہے گی۔ وہ لکھے گی کہ انسانیت غزہ میں دفن ہو گئی، اور دنیا نے صرف تماشہ دیکھا۔