الحاد سے بنیادی گفتگو خدا کے وجود پر ہے اور پھر یہ گفتگو وحی ، روح ، کتاب ، نبوت ، معجزہ ، جنت ، جہنم ، برزخ ، فرشتے ، جنات اور دیگر مابعد الطبیعیاتی امور تک پھیل جاتی ہے اسی گفتگو کے حوالے سے مسلمانوں کے دو گروہ ایسے رہے ہیں کہ جو بالکل دو ٹوک اور واضح موقف پیش کرتے ہیں۔
پہلا گروہ ہے ظواہر کا ہے ان کے یہاں قرآن سنت سے ایک لفظ بھی اضافی قبول نہیں یہاں تک کہ وہ بعض جگہوں پر فقہ جیسے شرعی علم سے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں جیسے شیخ ابن حزم اندلسی رح ان حضرات کے یہاں صاف اور واضح موقف ہے کہ مابعد الطبیعیاتی امور کو جن الفاظ اور جس انداز میں بیان کردیا گیا وہاں سے ایک انچ بھی ہلنے کی گنجائش نہیں کوئی تاویل کوئی تفویض کسی بھی درجے میں قبول نہیں۔
دوسرا گروہ ہے صوفیاء کا ان حضرات کا صاف اور واضح موقف ہے کہ مابعد الطبیعیاتی امور سے متعلق ان کا وجدان ان کی کیفیات و احساسات ان کے مکاشفات گواہی دیتے ہیں وہ کائنات کے ہر مظہر میں خالق کی خالقیت کے مظاہر کا مشاہدہ کرتے ہیں اگر ہم مولانا روم رح کی مثنوی دیکھیں تو ہمیں یہی رنگ دکھائی دیتا ہے۔
ان دو گروہوں کے درمیان متکلمین ہیں پھر متکلمین بعض تو وہ ہیں کہ جو اہل تصوف سے قریب ہیں اور بعض وہ ہیں کہ جو ظواہر سے قریب ہیں یہ وہ دور ہے کہ جب الحاد فلسفے کے پردے میں ظاہر ہوا اور الہیات کو بہت سے حضرات نے فلسفے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی اور اس حد تک گئے کہ شریعت ان کے ہاتھ سے نکل گئی جیسے ابن رشد وغیرہ یا معتزلہ کا پورا منہج فکر کہ جو یونانی فلسفے سے متاثر رہا۔
دوسری جانب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح جیسی شخصیات ہیں انہوں نے فلاسفہ سے کلام کیا تو متکلمین کے اصولوں پر کیا لیکن کسی حد تک ظاہری منہج فکر سے قریب رہے اسی لیے مابعد الطبیعیاتی امور میں ان کی آراء معقولات و منقولات ہر دو دائروں میں گفتگو کرتی ہیں۔
پھر ہمیں ابن عربی رح دکھائی دیتے ہیں ابن عربی کی بنیاد مکاشفات اور وجدان پر تھی ان کی گفتگو کیفیات و احساسات پر مبنی تھی لیکن جب وہ مابعد الطبیعیاتی امور کو چھیڑتے ہیں تو وہ بھی متکلمین کے اصولوں پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں اسی لیے بہت سے مابعد الطبیعیاتی امور میں انکی اور ابن تیمیہ رح کی رائے شدید ترین منہجی اختلاف کے باوجود ایک جیسی دکھائی دیتی ہے۔
ان تمام گروہوں کے وسط میں ہمیں امام غزالی رح کھڑے دکھائی دیتے ہیں غزالی نے کلامی اصولوں پر گفتگو تو کی ہے لیکن اس میں کشفی رنگ دکھائی دیتا ہے ان کے یہاں اعتقاد ظاہری منہج فکر پر ہے مگر تصوف کی چاشنی کے ساتھ ، وہ فلسفے کو فلسفے سے رد کرتے ہیں مگر اس کے مقابل ایک مکمل روحانی نظام بھی پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں متکلمین کے اشعری مکتب فکر کا رنگ انکے یہاں کافی گہرا ہے مگر اصحاب زہد کی کیفیات کے ساتھ ، انکی گفتگو خالص علمی ہونے کے ساتھ ساتھ خالص الہامی بھی ہے۔
اور تاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے اور نیچے چلے آئیے تو ہمیں شاہ ولی اللہ دہلوی رح کے باب پر پڑاؤ ڈالنا پڑتا ہے شاہ صاحب کے یہاں اشعری رنگ بھی ہے اور ماتریدی رنگ بھی ہے یعنی علم الکلام کی مکمل روایت موجود ہے تو دوسری جانب غزالی کا رنگ پوری طرح دکھائی دیتا ہے اگر ہم حجتہ اللہ البالغہ کو احیاء العلوم کی تجدید کہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا پھر شاہ صاحب رح نے مجدد الف ثانی رح کی روحانیت کو اکبری الحاد کا مقابلہ کرتے دیکھا ہے انہیں دکھائی دیتا ہے کہ دین اکبری معدوم ہو چکا اور مجدد کا رنگ ہر طرف موجود ہے دوسری جانب وہ خالص اہل حدیثی رنگ بھی رکھتے ہیں حکم و معارف مکاشفات و مشاہدات کے ساتھ منقولات کے بھی امام ہیں انہیں فلسفے کا بھی درک ہے اور وہ روحانیت کی دنیا کے بھی شناور ہیں۔
آج کے دور میں الحاد سے گفتگو کا منہج ہمیں انہی میں تلاش کرنا ہوگا چاہے وہ فلسفیانہ موشگافیاں ہوں یا مادیت پرستانہ رویہ ہمیں ولی الہی منہج فکر پر ہی الحاد سے گفتگو کرنی ہوگی۔
تبصرہ لکھیے