ہوم << کیا پاکستان اگلا تجارتی ہب بننے کو تیار ہے؟ نجیب خان

کیا پاکستان اگلا تجارتی ہب بننے کو تیار ہے؟ نجیب خان

چین اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی جنگ اب ایک نئے اور پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ اب صرف ٹیرف، پابندیوں یا سفارتی کشیدگی تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب جنگ کی سرزمین ڈیجیٹل دنیا ہے، اور اس میدان میں سب سے طاقتور ہتھیار ٹک ٹاک بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں "فرسٹ پوسٹ" کی ایک رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ چینی سپلائرز براہِ راست امریکی صارفین سے رجوع کر رہے ہیں، اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اب کسی درمیانی دلال یا ریٹیلر کی ضرورت نہیں، خریداری سیدھی فیکٹری سے کریں۔

ٹک ٹاک پر فیکٹری ورکرز اور چھوٹے چینی کاروباری حضرات کی ویڈیوز کی بھرمار ہے۔ ایک خاتون چھ امریکی ڈالر میں 'Lululemon' طرز کی لیگنگز بیچ رہی ہیں، جو امریکہ میں تقریباً سو ڈالر میں فروخت ہوتی ہیں۔ ایک اور وڈیو میں دکھایا جا رہا ہے کہ لگژری 'Birkin' بیگز صرف 1400 ڈالر میں تیار ہو رہے ہیں، وہی میٹریل، وہی ڈیزائن، وہی کوالٹی، صرف برانڈ لوگو کے بغیر۔ ایسی ویڈیوز نہ صرف قیمت کے فرق کو ظاہر کرتی ہیں، بلکہ ایک نفسیاتی بیانیہ بھی تشکیل دیتی ہیں، جو مغربی صارفین کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔

یقیناً، ان میں کچھ اشیاء نقل یا جعلی بھی ہو سکتی ہیں، اور چین جعلی مصنوعات کے حوالے سے پہلے ہی شہرت رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ مہم اثرانداز ہو رہی ہے۔ کیونکہ یہاں صرف سستی قیمتوں کی بات نہیں یہ ایک تخلیقی چال ہے، جس کے ذریعے چین ٹیرف، درآمدی پابندیوں اور روایتی تجارتی رکاوٹوں کو بائی پاس کر کے براہِ راست صارف تک پہنچ رہا ہے۔ یہ سب کچھ ٹک ٹاک کے ذریعے ممکن ہو رہا ہے، جو بظاہر ایک تفریحی ایپ ہے، مگر اس کے اثرات تجارتی اور معاشی محاذ پر پڑ رہے ہیں۔

اس پوری صورتحال میں پاکستان کے لیے سنجیدگی سے غور کرنے کا موقع ہے۔ سی پیک صرف ایک ترقیاتی پراجیکٹ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان پاکستان کی ایک اہم اقتصادی پوزیشن بن سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں چین اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں، اور ایسی صورت میں چین کے لیے پاکستان ایک قدرتی متبادل اور قابلِ بھروسا اتحادی ہو سکتا ہے۔ گوادر پورٹ صرف ایک بندرگاہ نہیں، بلکہ ایک اسٹریٹجک گیٹ وے بن سکتا ہے جس کے ذریعے چین اپنی مصنوعات عالمی منڈی، بالخصوص امریکہ، تک پہنچا سکتا ہے۔

ٹرمپ کے اس دور میں چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے گئے تو چین کو مجبوراً نئے راستے تلاش کرنے پڑے۔ اب جب کہ وہ براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کر رہا ہے، پاکستان اس پورے چینل میں لاجسٹک سپورٹ، شپنگ، یا حتیٰ کہ کسٹم کمیشن جیسے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر چین مصنوعات بنائے، اور ان کی ترسیل گوادر پورٹ کے ذریعے ہو، تو پاکستان نہ صرف وسطی ایشیائی تجارت کا مرکز بن سکتا ہے بلکہ عالمی تجارت میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

یہ ایک ایسا موقع ہے جسے صرف معیشت کے تناظر میں نہیں بلکہ اسٹریٹجک پوزیشننگ کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے مفادات کو ترجیح دے، اور اگر ممکن ہو تو اس ڈیجیٹل تجارت میں بھی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اگر ہم صرف تماشائی بنے رہے تو یہ تاریخ ہمیں خاموشی کا گواہ بنا کر چھوڑ دے گی۔

چین کی موجودہ حکمتِ عملی صرف پالیسی یا ٹکنالوجی نہیں بلکہ تخلیق اور ذہانت کا مظاہرہ ہے۔ انھوں نے اپنی نوجوان نسل کو ایک ایسا بیانیہ دیا ہے جو مغرب میں برانڈز کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک کو تقویت دے رہا ہے۔ جب ایک عام فیکٹری ورکر دکھاتا ہے کہ ایک لگژری پروڈکٹ کیسے چند سو ڈالر میں تیار ہوتی ہے، اور وہی چیز صارف تک ہزاروں ڈالر میں پہنچتی ہے، تو اعتماد سستی قیمت پر نہیں بلکہ سچائی پر قائم ہوتا ہے۔

اس سارے منظرنامے میں کوئی ملک برا نہیں اور نہ ہی کوئی مکمل بے قصور ہے۔ ہر قوم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پالیسی بناتی ہے۔ امریکہ صارفین کو تحفظ دینا چاہتا ہے، چین اپنی معیشت کو وسعت دینا چاہتا ہے، اور پاکستان کو اپنے وسائل اور محلِ وقوع کا دانشمندی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان صرف راہداری نہ بنے، بلکہ فیصلوں کا حصہ بنے۔

یہ موقع معمولی نہیں یہ اقتصادی خودمختاری اور عالمی سطح پر موجودگی کا دروازہ بن سکتا ہے۔ اگر ہم نے اس لمحے کو پہچان لیا، تو آنے والا وقت پاکستان کو صرف جغرافیائی نہیں بلکہ تجارتی اور سفارتی نقشے پر بھی نمایاں کر دے گا۔ یہ موقع گنوانا نہیں چاہیے۔