ہوم << پروفیسر خورشید احمد، تحریکِ اسلامی کا نشانِ امتیاز - محمد رضی الاسلام ندوی

پروفیسر خورشید احمد، تحریکِ اسلامی کا نشانِ امتیاز - محمد رضی الاسلام ندوی

محترم سلیم منصور خالد نائب مدیر ترجمان القرآن لاہور کی جانب سے موصول ہونے والی یہ خبر سوگوار کرگئی کہ پروفیسر خورشید احمد کا انتقال ہوگیا ہے - انا للہ وانا الیہ راجعون - وہ عرصے سے بیمار تھے ، اس کے باوجود عصری مسائل پر ان کی رہ نما تحریریں برابر سامنے آتی رہتی تھیں. یہاں تک کہ ان کا وقتِ موعود آپہنچا اور وہ اپنی بیش بہا خدمات کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے. کل سے مرکز جماعت اسلامی ہند میں اس کی مجلس نمائندگان کا اجلاس چل رہا ہے . بعد نماز مغرب امیر جماعت محترم سید سعادت اللہ حسینی نے شرکائے اجلاس کو یہ افسوس ناک خبر سنائی اور سب نے ان کے لیے دعا کی .

پروفیسر خورشید احمد کی ولادت 1932ء میں دہلی میں ہوئی ۔ انھوں نے قانون میں گریجویشن اور معاشیات اور اسلامیات میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کیں. 1949ء میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے اور 1953ء میں اس کے ناظمِ اعلٰی منتخب کیے گئے ۔ 1956ء میں جماعت اسلامی پاکستان میں باضابطہ طور پر شامل ہو گئے ۔ وہ جماعت کی مختلف ذمے داریوں پر فائز رہے. آخر میں عرصے تک نائب امیر رہے .

پروفیسر صاحب نے اسلام ، تحریکِ اسلامی ، تعلیم ، سیاسیات اور خاص طور پر معاشیات کے موضوعات پر خاصا کام کیا. ان میدانوں میں انھیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی. انھوں نے اردو اور انگریزی میں ستّر(70) سے زائد کتابیں تصنیف کیں. انہیں 1988ء میں پہلا اسلامی ترقیاتی بینک (IDB) ایوارڈ اور 1990ء میں شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ تفویض کیا گیا ۔ حکومتِ پاکستان نے 2010ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں اعلیٰ سول ایوارڈ 'نشانِ امتیاز' عطا کیا۔ ان کے علاوہ بھی انھیں عالمی سطح پر بہت سے ایوارڈز تفویض کیے گئے.

پروفیسر صاحب 1978ء میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی بنے۔ وہ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہے۔ 1985ء ،1997ء اور 2002 ء میں سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر کام بھی کیا۔ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے انھوں نے 1955ء سے لے کر 1958ء تک کراچی یونی ورسٹی میں تدریسی خدمت انجام دی۔ 1983ء سے 1987ء تک انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس کے چیئرمین رہے۔ 1979 ء سے 1983 ء تک کنگ عبد العزیز یونی ورسٹی جدہ کے وائس پریزیڈنٹ رہے۔ ان کے علاوہ بہت سے اداروں میں ذمے دارانہ حیثیت میں کام کیا. وہ دو اداروں کے بانی چیئرمین تھے : ایک انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد ، دوسرا لیسٹر (UK) کا اسلامک فاؤنڈیشن ۔

پروفیسر خورشید احمد کا تعارف تحریکی حلقوں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دستِ راست کی حیثیت سے ہے. انھوں نے مولانا مودودی کی فکر کو آگے بڑھانے اور مدلّل کرنے کے لیے اہم تحریری و تصنیفی خدمات انجام دیں. ان کی ترتیب کردہ کتاب 'تحریک اسلامی : ایک تاریخ ، ایک داستان' مشہور ہے ، جس میں انھوں نے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کی فائلوں سے مولانا مودودی کی تحریریں ایک خاص ترتیب سے مرتب کرکے ثابت کیا کہ جماعت اسلامی کی تشکیل 1941 میں اچانک نہیں ہوگئی تھی ، بلکہ دس برس پہلے سے مولانا اس کے لیے زمین ہموار کررہے تھے - انھوں نے مولانا مودودی کی متعدّد کتابوں کی تدوینِ نو کی ، جن میں 'اسلامی ریاست' خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے.

پروفیسر صاحب نے متعدد رسائل کی ادارت کے فرائض انجام دیے. ان کے مرتب کردہ مجلّہ 'چراغِ راہ' کے اسلامی قانون نمبر کو بہت شہرت ملی. 1997 میں انھیں ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کا مدیر بنایا گیا. اس میں شائع ہونے والے ان کے اداریے مختلف دینی، علمی، سماجی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر موضوعات پر بہت تحقیقی ہوتے تھے. وہ جس موضوع پر بھی لکھتے،پہلے اس سے متعلق بھرپور معلومات اکٹھا کرلیتے ، پھر اس کی روشنی میں پوری بے باکی کے ساتھ تجزیہ کرتے اور راہِ عمل واضح کرتے.

پروفیسر خورشید صاحب عالمی تحریکاتِ اسلامی سے قریبی تعلقات رکھتے تھے. اس کا اندازہ ان کی ان تعزیتی تحریروں سے ہوتا ہے جو انھوں نے تحریکات کے متعدد سربراہوں کی وفات پر لکھی تھیں. جماعت اسلامی ہند کے امراء سے بھی ان کے خوش گوار تعلقات تھے. مولانا سید جلال الدین عمری سے میں بہت قریب رہا ہوں. وہ جب ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے سکریٹری تھے، اس زمانے سے ان کے پاس خورشید صاحب کے خطوط آنے لگے تھے. بعد میں جب مولانا امیرِ جماعت بنائے گئے تب بھی یہ سلسلہ جاری رہا . ان خطوط میں مولانا کی کتابوں اور مضامین پر تحسین اور تبصرہ اور جماعت کے بارے میں بھی کچھ ذکرِ خیر ہوتا تھا. ان کے بعض خطوط تحقیقات اسلامی میں شائع کیے گئے ہیں. مولانا عمری کی کتاب 'غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق' شائع ہوئی تو خورشید صاحب نے اس پر بہت پسندیدگی کا اظہار کیا اور خواہش کی کہ وہ اس کا انگریزی ترجمہ کروانا چاہتے ہیں. انھوں نے اس کے نصف اوّل کا ، جو غیر مسلموں کے حقوق سے متعلق تھا ، ترجمہ بھی کروالیا تھا ، لیکن کسی وجہ سے UK سے اس کی اشاعت نہ ہوسکی تو انھوں نے ترجمہ شدہ مواد بھجوادیا. بعد میں مکمل کتاب کا انگریزی ترجمہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا.

تحقیقات اسلامی کی اشاعت کو 25 برس ہوئے تو اس کا ایک خصوصی شمارہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا . طے پایا کہ مشہور شخصیات سے اس کے بارے میں تاثرات منگوائے جائیں. اس مناسبت سے خورشید صاحب کو بھی خط لکھا گیا. انھوں نے جواب میں تحقیقات اسلامی کے بارے میں بہت تعریف و توصیف پر مبنی مکتوب ارسال فرمایا - اس کے چند جملے درج ذیل ہیں:
” یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ 'تحقیقات اسلامی' کے 25 سال پورے ہونے پر آپ ایک خصوصی شمارہ شائع کر رہے ہیں. میں 'تحقیقات اسلامی' کا مطالعہ شروع ہی سے کر رہا ہوں اور شاید چند ہی ایسے شمارے ہوں گے جو کہ میری نظر سے نہ گزرے ہوں. اس مجلّے نے علمی انداز میں اسلام کی دعوت اور دین کے موضوعات پر فکر کو جلا بخشنے والی قیمتی خدمات انجام دی ہیں. میرے محترم بھائی مولانا سید جلال الدین عمری علم و اخلاق میں اسلاف کی مثال ہیں ، اطال اللہ عمرہ. اللہ تعالٰی نے ان کو دل اور دماغ کی جن اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا ہے ان کے ذریعے انہوں نے اس کام کو جاری رکھا ہے جس کا آغاز بیسویں صدی میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی اور ان کے اولین رفقائے کار نے کیا تھا . مولانا سید جلال الدین عمری کی زیر سرپرستی 'تحقیقات اسلامی' کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے پرانے چراغ ہی روشن نہیں رکھے ، بلکہ نئے چراغ بھی جلائے ہیں اور ان موضوعات پر دادِ تحقیق دی ہے جن پر تحریک کے السابقون الاوّلون نے کھل کر کام نہیں کیا ، یا صرف اجمالی اشارات تک محدود رہے تھے. تحقیقاتِ اسلامی کے ذریعے چند بڑے نادر موضوعات پر بھی کام سامنے آیا ہے ، جیسے 'اسلام اور خدمتِ خلق' ، 'اسلام اور غیر مسلموں سے تعلقات' اور یہ اسی مجلّے اور اس کے مدیر کا منفرد کارنامہ ہے. میں آپ سب کو ان علمی خدمات پر ، جو صرف علمی ہی نہیں ، بلکہ اسلام کے انقلابی پیغام کو دورِ حاضر کے مسائل اور ضرورتوں کی روشنی میں پیش کرنے کا ذریعہ ہیں ، دل کی گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ یہ کام نہ صرف جاری رہے ، بلکہ اس میں دن دگنی رات چوگنی ترقی واقع ہو . مجھے یقین ہے کہ جس طرح 'تحقیقات اسلامی' کے ذریعے اس کے مضمون نگار حضرات گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ، ان شاءاللہ اس کے نتیجے کے طور پر اگلے مرحلے میں لکھنے والوں کی ایک نئی کھیپ بھی اس مجلّے کے ذریعے ہمارے فکری اور علمی محاذ پر روٗنما ہوتی رہے گی ، تاکہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہ سکے. اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ آپ سب سے اور ہم سے وہ کام لے جو دنیا میں انسانوں کے لیے بہتری کا اور آخرت میں ہمارے لیے نجات اور کام یابی کا ذریعہ ہو .“ (سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ ، اکتوبر - دسمبر 2006، ص62 - 64)

میری سعادت ہے کہ مجھے ایک بار پروفیسر صاحب سے ملاقات کا موقع ملا ہے. غالباً 2013 میں شعبۂ تفسیر و علوم القرآن ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کی طرف سے 'ترجمۂ قرآن کی مشکلات و مسائل' کے عنوان پر سیمینار منعقد ہوا تھا - اس میں مجھے اور برادر محترم پروفیسر عبید اللہ فہد فلاحی کو شرکت کا موقع ملا تھا. ہمیں معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب ان دنوں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں موجود ہیں. ہم نے ایک واسطہ سے ملاقات کی خواہش بھجوائی تو موصوف نے بہ طیبِ خاطر اجازت مرحمت فرمائی. ہم پہنچے تو انھوں نے پرتپاک استقبال کیا ، خوب تواضع کی، دیر تک گفتگو کرتے رہے. ایسے ملے جیسے بہت پہلے سے ہمیں جانتے ہوں. جماعت اور ادارہ کے احوال دریافت کیے. برادر عبید اللہ فہد نے معاشیات کے کچھ موضوعات چھیڑ دیے. بس کیا تھا ، معلومات کا دریا بہنے لگا . برادر فہد اتنے خوش ہوئے کہ کہنے لگے :” میں ہونے والی گفتگو کو ایک مضمون کی صورت میں قلم بند کروں گا - “

میں نے عرض کیا : ” آپ کی کتاب 'اسلام کا نظریۂ حیات' تحریکی حلقوں میں بہت معروف ہے. اسے ہم ہندوستان میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع کرنا چاہتے ہیں. “ انھوں نے فرمایا : ” یہاں پاکستان میں اس کے بہت سے ایڈیشن طبع ہوئے ہیں. یہ سرکاری تعلیم گاہوں میں بھی داخل ہے. اب میں نے اس پر نظر ثانی کی ہے اور اسے تین کتابوں کی صورت میں تیار کیا ہے : (١) مذہب اور دور جدید (٢) اسلامی فلسفۂ حیات (٣) اسلامی نظامِ حیات. یہ کتابیں بہت جلد انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے شائع ہوجائیں گی ، تب آپ کو بھیج دی جائیں گی - “ الحمد للہ بعد میں یہ کتابیں مرکزی مکتبہ سے شائع ہوگئیں -

میری سعادت ہے کہ میری تحریریں اور تصانیف پروفیسر موصوف کی نظر سے گزرتی رہتی تھیں اور ان کی جانب سے مجھے ہدیۂ تبریک و تحسین موصول ہوتا رہتا تھا. ہمارے درمیان رابطہ کی کڑی برادر محترم سلیم منصور خالد تھے. وہ ڈاکٹر صاحب کا سلام پہنچاتے اور ان کی خواہش کا اظہار کرتے اور میں ان کی مطلوبہ چیز بھیج دیتا . ابھی چند ماہ پہلے 'اقامتِ دین' کے موضوع پر اکابرِ تحریک اسلامی کے مضامین کا ایک مجموعہ میں نے تیار کیا تو اس میں پروفیسر صاحب کا بھی ایک قیمتی مضمون شامل کیا اور اسے ان کی خدمت میں بھجوایا.

پروفیسر خورشید احمد کی وفات تحریک اسلامی ہند و پاک کے ایک عہد کا خاتمہ ہے. مولانا مودودی اور ان کے رفقاء اور شاگردوں نے دین کے اقامت اور احیا کا جو عہد کیا تھا اسے پورا کیا . ان میں سے بیش تر اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ وقت آنے کے منتظر ہیں. انہوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے. اللہ تعالیٰ موصوف کی مغفرت فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے پس ماندگان اور رفقائے تحریک اسلامی کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین ، یا رب العالمین!