ہوم << کچی پگڈنڈی کا خواب - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

کچی پگڈنڈی کا خواب - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

پہلا منظر: مٹی کی خوشبو میں رچی صبح
نہر کے کنارے درختوں کی اوٹ سے سورج کی کرنیں دھیرے دھیرے نکل کر کھیتوں کی اوڑھنی پر بکھرنے لگیں تو گاؤں "نور پور" میں صبح کی پہلی سانس ابھری۔ مرغے بانگیں دینے لگے، بیلوں کی گھنٹیوں کی جھنکار ہوا میں رس گھولنے لگی، اور مٹی کی وہ مخصوص مہک جو صرف دیہات کی پہچان ہے فضا میں رچ بس گئی۔ نور پور، جو بظاہر ایک عام سا گاؤں ہے، دراصل ہزاروں دیہی بستیوں کا عکس تھا۔ زندگی یہاں سادہ تھی، مگر محرومیوں سے بھری ہوئی۔ اسکول صرف نام کا تھا، ہسپتال میں صرف در و دیوار تھے، اور نوجوان یا تو ہجرت کر چکے تھے یا سوچ کے سفر میں کہیں گم تھے۔

مرکزی کردار: فیاض : تعلیم یافتہ مگر مٹی سے جُڑا
فیاض نور پور کا پہلا نوجوان تھا جس نے شہر سے بی اے کیا تھا۔ اس کے باپ جی، حاجی اسلم، ایک کسان تھے جنہوں نے بیٹے کی تعلیم کے لیے کھیت گروی رکھ دیے۔ شہر میں پڑھتے ہوئے فیاض نے خواب دیکھا کہ وہ واپس آ کر گاؤں کی قسمت بدلے گا۔ اسے اقبال کا یہ شعر اکثر یاد آتا:

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

لوٹنا اور تلخ حقیقتوں کا سامنا
واپسی پر فیاض کو گاؤں کی حالت دیکھ کر دکھ ہوا۔ اسکول کی عمارت کھنڈر ہو چکی تھی، نوجوانوں میں بے حسی تھی، اور عورتیں محض چولہے اور چکی کے درمیان سمٹ چکی تھیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب عمل کا وقت ہے۔ سب سے پہلے اس نے پرانے اسکول کی مرمت شروع کی۔ اپنی کتابوں اور کاپیوں سے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ ابتدائی دنوں میں محض پانچ بچے آتے تھے۔

عوامی میٹنگ اور پہلا قدم
فیاض نے گاؤں کے چوک میں ایک عوامی میٹنگ بلائی۔ اس کی تقریر مختصر مگر پراثر تھی:
"میں تعلیم یافتہ ضرور ہوں، مگر تم لوگوں جیسا ہی ہوں۔ مجھے شہر کی سڑکیں نہیں، یہ کچی پگڈنڈیاں عزیز ہیں۔ ہم سب مل کر اگر نیت صاف رکھیں تو سب کچھ ممکن ہے۔"
چودھری غلام دین، جو برسوں سے پنچایت کے سرپنچ تھے، آگے بڑھے اور کہا:
"پتر! اگر تو سچ کہہ رہا ہے تو ہم تیرے ساتھ ہیں۔ ہم نے بہت وعدے سنے، لیکن پہل کبھی کسی نے نہ کی۔"

تعلیم، ہنر، اور زراعت میں انقلابی تبدیلیاں
فیاض نے اسکول کو اپنی محنت سے دوبارہ فعال کر دیا۔ گاؤں کی بیٹیوں کے لیے وہ اپنی بہن کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا سلائی سینٹر بھی قائم کرتا ہے۔ اُن خواتین نے جو کبھی گھر کی دہلیز سے باہر نہ نکلی تھیں، اب کپڑے سینے اور کڑھائی کے آرڈر لینے لگی تھیں۔ زراعت میں بہتری کے لیے فیاض نے زرعی ماہرین سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کسانوں کو بتایا کہ فصلوں کی پیداوار جدید کھاد، بیج اور پانی کے مناسب استعمال سے کیسے بڑھائی جا سکتی ہے۔

مخالفت اور سازشیں
تبدیلی ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔ کچھ بااثر افراد، جو گاؤں کے پسماندہ نظام سے فائدہ اٹھاتے تھے، فیاض کے خلاف ہو گئے۔ اسکول کے باہر نفرت انگیز نعرے لکھے گئے، سلائی سینٹر کو رات کے اندھیرے میں بند کر دیا گیا۔ لیکن فیاض کا ایمان مضبوط تھا۔ اس نے نوجوانوں کو ساتھ ملایا، اور خواتین کو ہمت دی کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں۔ وہ کہتا:
"یہ پگڈنڈی جو ہم بنا رہے ہیں، خواب کی نہیں، حقیقت کی ہے۔ ہمیں چلنا ہوگا ۔ کانٹوں پر بھی۔"

پھل دینے لگی کوششیں
دو سال بعد نور پور بدل چکا تھا۔ اسکول میں ساٹھ سے زائد بچے پڑھنے لگے تھے۔ خواتین باعزت آمدنی کما رہی تھیں۔ کسان زرعی میلوں میں اپنے تجربات شیئر کرنے لگے تھے۔ ضلع کا ڈپٹی کمشنر گاؤں آیا، اس نے اسکول کی کارکردگی کو سراہا، اور ایک مستقل فنڈ منظور کیا۔ اسکول کی عمارت پختہ کر دی گئی، اور فیاض کو ضلع کی دیہی ترقیاتی کمیٹی میں مشیر مقرر کر دیا گیا۔

آخری منظر: خوابوں کی تعبیر
ایک شام، جب دھوپ سونے کی مانند کھیتوں پر بکھری ہوئی تھی، فیاض نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ بچے کھیل رہے تھے، عورتیں ہنستی باتیں کر رہی تھیں، اور کھیتوں میں سبزیاں لہرا رہی تھیں۔

اس نے آسمان کی طرف دیکھا، اور زیر لب کہا:
"یہ پگڈنڈی اب مٹی کی نہیں رہی، یہ خوابوں کی شاہ راہ بن چکی ہے۔"

Comments

Click here to post a comment