ہوم << پروفیسر خورشید احمد: فکر اسلامی کا روشن مینار - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

پروفیسر خورشید احمد: فکر اسلامی کا روشن مینار - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

اسلامی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے افکار، کردار اور خدمات کے ذریعے نہ صرف ایک تحریک کو جِلا بخشتی ہیں بلکہ نسلوں کو راستہ دکھاتی ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد انہی شخصیات میں سے ایک تھے۔ ان کی علمی بصیرت، سیاسی حکمت اور دینی حمیت نے انہیں پاکستان اور عالم اسلام میں ایک منفرد مقام عطا کیا۔
پروفیسر خورشید احمد کی پیدائش 1932 میں دہلی (برصغیر) میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد پاکستان آ کر کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹر کیا اور بعد ازاں برطانیہ سے اسلامی معیشت پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ شروع ہی سے علمی جستجو اور دین سے وابستگی کے حامل تھے۔ ان کا رجحان اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی طرف تھا۔

پروفیسر خورشید احمد نے اسلامی معیشت کے شعبے میں جو خدمات انجام دیں، وہ ان کی پہچان بن گئیں۔ انہوں نے مغربی معیشت کے نظام پر گہرا مطالعہ کیا اور اسلامی معیشت کا ایک متبادل فریم ورک پیش کیا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ صرف تنقید نہیں کرتے تھے بلکہ قابلِ عمل متبادل فراہم کرتے تھے۔
انہوں نے "انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز" (IPS) اور "اسلامک فاؤنڈیشن" لیسٹر (برطانیہ) جیسے علمی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اسلامی اسکالرشپ کے مراکز ہیں۔ ان کی تحریریں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں بطور نصاب شامل ہیں۔ ان کی لکھی گئی کتابیں اسلامی معیشت، سماجیات اور اخلاقیات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے رہنمائی کا خزانہ ہیں۔

پروفیسر صاحب کا جماعت اسلامی سے رشتہ صرف ایک رکنیت کا نہیں تھا، وہ اس تحریک کے فکری و نظریاتی ستونوں میں شامل تھے۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ کے ساتھ ایک فکری سفر کا آغاز کیا اور اسے عمر بھر نبھایا۔ وہ طویل عرصہ جماعت اسلامی کے نائب امیر رہے اور تحریک کو فکری، سیاسی اور تنظیمی اعتبار سے استحکام دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک نظام مصطفیٰ میں وہ جماعت اسلامی کی طرف سے اہم رہنما تھے۔ بعد ازاں 2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کے بینر تلے مذہبی جماعتیں متحد ہوئیں، تو وہ اس اتحاد کے فکری محرکین میں شامل تھے۔ ان کی سیاست کا محور ہمیشہ نظریۂ پاکستان، اسلامی قوانین کا نفاذ اور جمہوری اقدار کا فروغ رہا۔

پروفیسر خورشید احمد نے اسلامی دنیا کی علمی مجالس اور پالیسی ساز اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وہ "او آئی سی"، "اسلامی ڈیولپمنٹ بینک"، "ورلڈ اسلامک اکنامک فورم" سمیت کئی بین الاقوامی اداروں میں سرگرم رہے۔ ان کی زبان اور قلم دونوں نے دنیا کو باور کرایا کہ اسلام جدید دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

ان کا اندازِ فکر منطقی، علمی اور متوازن تھا۔ وہ شدت پسندی یا سطحی جذباتیت کے قائل نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کو دنیا کے سامنے ایک معتدل، مہذب اور فکری نظام کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے۔ وہ ہمیشہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیتے تھے، اور ان کے لیے فکری نشستوں، لیکچرز اور تربیتی پروگراموں کا انعقاد ان کی ترجیحات میں شامل تھا۔

پروفیسر صاحب طویل عرصے سے علیل تھے، مگر ان کی فکری سرگرمیاں جاری رہیں۔ ان کا انتقال ایک علمی و تحریکی خلا چھوڑ گیا ہے جسے پُر کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ ان کی وفات پر نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ پورے علمی و فکری حلقے میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔

پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت ان بلند آدرشوں کی عملی تصویر تھی جو ایک مسلمان مفکر، ایک داعی اور ایک مصلح میں ہونے چاہئیں۔ ان کی خدمات اسلامی تحریک کے لیے ایک چراغ راہ ہیں۔ وہ چلے گئے، لیکن ان کی فکری میراث آج بھی زندہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، اور ہمیں ان کے چھوڑے ہوئے نقوش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔