سرزمینِ عرب پر جب نورِ اسلام طلوع ہوا تو اس کی ضیاء باری نے قلوب و اذہان کو منور کرنا شروع کیا۔ ان خوش نصیب نفوس میں ایک ایسی جلیل القدر ہستی بھی شامل ہے جنہیں تاریخِ اسلام سید الشہداء، خیر الشہداء، اسد اللہ و اسد رسولہ، کاشف الکربات اور فاعل الخیرات جیسے القابات سے یاد کرتی ہیے، یہ ہیں حضرت سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرب کے بہادر، نڈر اور جواں مرد شہسوار تھے جن کی سیر و سیاحت اور شکار سے رغبت مشہور تھی۔ اعلانِ نبوت کے چھٹے سال خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تین روز قبل آپ نے دولتِ ایمان سے اپنے قلب کو منور کیا اور آپ کے ایمان لانے کا سبب آپ کی اپنے بھتیجے رحمتِ عالم ﷺسے والہانہ محبت اور عقیدت تھی۔
مؤرخین کے مطابق حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت حضور نبی کریم ﷺکی اس دنیا میں تشریف آوری سے دو سال قبل ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاندانِ بنو ہاشم اور اولادِ عبدالمطلب میں نہ صرف سب سے زیادہ بہادر تھے بلکہ ظاہری شکل و صورت میں بھی نہایت حسین و جمیل تھے۔ آپ کا قد مبارک درمیانہ، پیشانی چمکدار، بدن دبلا اور کلائیاں چوڑی تھیں۔ عہدِ طفولیت سے ہی آپ کو کشتی، تیر اندازی اور پہلوانی کا شوق تھا۔
حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ اور سورہ انعام کی آیت نمبر 122 کا شانِ نزول بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ مفسرین نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ آپ کے ایمان لانے پر نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک روز ابوجہل نے سیدِ عالم ﷺپر کوئی ناپاک چیز پھینک دی۔ اس دن حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شکار سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ انہیں اس واقعہ کی اطلاع ملی۔ اگرچہ ابھی تک آپ دولتِ ایمان سے بہرہ ور نہیں ہوئے تھے، لیکن یہ خبر سنتے ہی آپ غضبناک ہو گئے اور حرمِ کعبہ میں پہنچ کر ابوجہل کو کمان سے مارنے لگے۔ ابوجہل نے عاجزی کرتے ہوئے کہا: اے ابویعلیٰ! کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ محمد (ﷺ کیسا دین لائے ہیں، انہوں نے ہمارے معبودوں کو برا کہا، ہمارے آباء و اجداد کی مخالفت کی اور ہمیں بے عقل بتایا ہے۔ اس پر حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: تم سے زیادہ بے عقل کون ہے جو اللہ عزوجل کو چھوڑ کر پتھروں کی پوجا کرتے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ اسی وقت حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کر لیا جس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
اسلام لانے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فی البدیہہ اشعار کہے جن میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور نبی کریم ﷺکی رسالت کی گواہی شامل تھی۔ آپ کے ایمان لانے کا سبب محض حبِ رسول ﷺتھا۔ قبل از اسلام بھی آپ حضور نبی رحمت دو عالم ﷺکی تائید و نصرت اور حمایت میں پیش پیش رہتے تھے اور بعد از اسلام تا دمِ واپسی حضور کے جانثار ساتھی رہے۔ سیدِ عالم ﷺکو بھی آپ سے بے حد پیار تھااور آپ فرمایا کرتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے اور وہ اس کا نام رکھنا چاہتے ہیں۔ تو رحمتِ عالم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے چچا حمزہ سے محبت ہے، لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھو۔
حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے اہل ایمان کو مکۃ المکرمہ کے پرآشوب ماحول میں سکون کا سانس ملااور کفارِ مکہ کی روز کی ایذا رسانی میں کسی حد تک کمی آئی۔ پھر آپ کے تین دن بعد جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی دولتِ ایمان سے مشرف ہوئے تو مسلمانوں کو مزید تقویت ملی اور انہوں نے اعلانیہ طور پر طوافِ کعبہ کیا۔ حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ اپنے بھتیجے، اللہ کے رسول ﷺکی حمایت میں پیش پیش رہے۔ آپ ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے سب سے پہلے عَلَمِ اسلام اٹھایا۔ چنانچہ ہجرت کے پہلے سال رمضان المبارک میں 30 سواروں کی قیادت کرتے ہوئے کفار کی سرکوبی کے لیے نکلے، اگرچہ اس سریہ میں کوئی جنگ کا واقعہ پیش نہیں آیا لیکن تاریخ میں اسے ''سریّہ حمزہ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
حضرت سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان خاص اصحاب میں سے تھے جنہیں حضور نبی کریم ﷺکے حواری یعنی مددگار اور جانثار ہونے کا شرف حاصل تھا۔ غزوۂ بدر میں آپ کی شجاعت و بہادری دیدنی تھی۔ سر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے دونوں ہاتھوں میں تلوار لیے کفار سے نبرد آزما ہونے کے لیے میدان میں نکلے اور کئی رؤسائے مکہ کو واصلِ جہنم کیا۔ آپ دورانِ جنگ اعلان کرتے تھے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔
غزوۂ احد میں بھی حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت بے جگری سے جنگ کی اور اکتیس (۳۱)مشرکین کو جہنم واصل کیا۔ اسی حالت میں ''سباع غبشانی'' آپ کے سامنے آ گیا جس پر آپ نے تلوار سے وار کر کے اسے دو ٹکڑے کر دیا۔ وحشی نامی ایک حبشی غلام جسے اس کے آقا جبیر بن مطعم نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے کی صورت میں آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا، ایک چٹان کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ جونہی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے قریب پہنچے، اس نے دور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا جو آپ کی ناف میں لگا اور پشت کے پار ہو گیا۔ اس حال میں بھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر اس کی طرف بڑھے مگر زخم کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور جامِ شہادت نوش کر گئے۔ دشمنوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ آپ کے ناک، کان اور پیٹ کو چاک کر دیا۔ اس جگر خراش منظر کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کا دل بے اختیار بھر آیا اور آپ کی زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہوئے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو کہ آپ قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔
بوقتِ جنازہ رسول اللہ ﷺنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے حمزہ! اے رسول اللہ کے چچا، اللہ اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسول اللہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے! شہدائے احد میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپ کی بھی نماز پڑھی گئی، جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ بھی شامل ہوتے۔ جبلِ احد کے دامن میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار دعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔
حضور ﷺشہدائے احد کی قبروں کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بھی یہی معمول رہا۔ ایک مرتبہ حضور ﷺنے شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جا کر فرمایا کہ اے اللہ! تیرا رسول گواہ ہے کہ اس جماعت نے تیری رضا کی طلب میں جان دی ہے۔ پھر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قیامت تک جو مسلمان بھی ان شہیدوں کی قبروں پر زیارت کے لیے آئے گا اور ان کو سلام کرے گا تو یہ شہداء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کے سلام کا جواب دیں گے۔
چھیالیس برس کے بعد شہدائے احد کی بعض قبریں کھل گئیں تو ان کے کفن سلامت اور بدن تروتازہ تھے۔ اہل مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہداء کرام اپنے زخموں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگتا۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جو اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ مت کہو، وہ تو زندہ ہیں، مگر تم کو خبر نہیں۔
تبصرہ لکھیے