ہوم << کال سننا اخلاقی ذمہ داری ہے - خواجہ مظہر صدیقی

کال سننا اخلاقی ذمہ داری ہے - خواجہ مظہر صدیقی

آج کے جدید دور میں موبائل فون ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ میں، جیب میں، میز پر یا گاڑی کے ڈیش بورڈ پر ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ جب فون کی رنگ ٹون بجتی ہے اور اسکرین پر کال کرنے والے کا نام اور نمبر واضح نظر آتا ہے، تب ہمارے جاننے والے اکثر لوگ جان بوجھ کر کال ریسیو نہیں کرتے۔ ایسا رویہ اب معمول بن چکا ہے، لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ اور اس سے دوسروں پر کیا اثر پڑتا ہے؟

بعض اوقات ہم واقعی کسی کام میں مصروف ہوتے ہیں۔ میٹنگ، کلاس، نماز یا ڈرائیونگ جیسی صورت حال میں فون اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن بار بار اور خاص طور پر چند مخصوص افراد کی کال کو مسلسل نظر انداز کرنا ایک بری عادت بن جاتی ہے۔ کچھ لوگ موڈ کی خرابی یا ذہنی تھکن کی وجہ سے کال کا جواب نہیں دیتے۔ بعض اوقات ناراضی، انا یا ضد کی وجہ سے بھی فون نہ اٹھانے کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ کچھ افراد نفسیاتی دباؤ یا اینگزائٹی کا شکار ہوتے ہیں، جس کے باعث وہ فون کال سننے سے گھبراتے ہیں۔

بدقسمتی سے آج کل سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپس کی مقبولیت نے بھی ہمیں براہ راست بات کرنے سے دور کر دیا ہے۔ لوگ اب ٹیکسٹ پیغامات کو کال پر ترجیح دیتے ہیں، جس سے فون کال کو نظر انداز کرنا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔

اس رویے کی کئی علامات ہوتی ہیں: جیسے کہ بار بار کال نہ اٹھانا، مخصوص نمبروں کو نظر انداز کرنا، کال آنے پر چڑچڑا ہونا یا فون دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا۔ ان رویوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رشتے کمزور ہو جاتے ہیں، دوست احباب بدظن ہو جاتے ہیں، اہم بات چیت یا فوری مدد کا موقع ضائع ہو جاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی شخصیت کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ آپ خود غرض، مغرور یا بے حس انسان ہیں۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعض لوگ واقعی ایسی مجبوری یا حالت میں ہوتے ہیں کہ فون ریسیو نہیں کر سکتے۔ اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ وہ بعد میں کال بیک کر لیں یا ایک مختصر سا معذرتی پیغام بھیج دیں۔ ایسا کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر درست ہے بلکہ تعلقات کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔

اس رویے کے سدباب کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اخلاقی تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ ایک کال محض رابطہ نہیں بلکہ کسی کی ضرورت، امید یا محبت بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ہم کسی کی کال کا فوری جواب نہیں دے سکتے تو بعد میں ضرور کال بیک کریں۔ اگر کسی سے ناراضی ہے، تو کم از کم ایک بار بات سن لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر ہمیں فون اٹھانے میں نفسیاتی رکاوٹ محسوس ہوتی ہے تو ہمیں ماہرین سے مدد لینی چاہیے۔

ہمیں رشتوں کو وقت دینا سیکھنا ہوگا، کیونکہ جب کسی کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گی تو پھر ہم صرف پچھتاوا ہی کر سکیں گے۔ اس لیے فون کی گھنٹی کو ایک عام آواز نہ سمجھیں، بلکہ اسے ایک موقع سمجھیں ، کسی کے دل کی بات سننے کا، کسی کے دکھ کا مداوا بننے کا، اور رشتوں کو جوڑنے کا۔

آئیے، ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دوسروں کی کال سننے کو صرف سماجی ضرورت نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی اور اخلاقی ذمہ داری سمجھ کر اپنائیں۔ ایک کال، ایک تعلق، ایک احساس ، جو وقت پر سن لیا جائے، تو دلوں میں روشنی اور خوشیاں بھر دیتا ہے۔

Comments

Avatar photo

خواجہ مظہر صدیقی

خواجہ مظہر صدیقی ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان کے ڈائریکٹر ہیں۔ تعلق اولیاء کی نگری ملتان سے ہے۔ اٹھارہ سال روزنامہ نوائے وقت میں صدائے دل کے عنوان سے سماجی اور معاشرتی عنوانات پر کالم شائع ہوتے رہے ہیں۔ پانچ کتب کے مصنف ہیں۔ 1993 میں جنوبی پنجاب میں کہانی گھر کی بنیاد رکھی، اب تک 320 کہانی گھر قائم کیے ہیں۔ اس سلسلے میں بچوں میں کہانی کی ختم ہوتی قدیم ترین روایت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

Click here to post a comment