ہوم << جو دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں۔فخرالزمان سرحدی

جو دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں۔فخرالزمان سرحدی

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

(اقبالؒ)

زندگی کی عبارت غریبوں اور درد مندوں کے ساتھ محبت سے رنگین ہے۔انسان کا خاصا بھی تو الفت اور محبت کے چمن سجانا اور انسانیت کے درد کی کسک محسوس کرنا ہے۔دنیا کے کسی کونے اور گوشے میں انسانیت کا خون بہنے پر بے تابی اور اضطراب محسوس کرنے والے انسان ہی عظیم اور سراپا درد ہوتے ہیں۔یہ کائنات تو محبتوں کا گھر ہے۔دوسروں کے دکھ درد اور خوشی و مسرت کے ماحول میں شرکت ہی تو ایک بہترین روایت ہے۔اس شاندار روایت کے زندہ رکھنے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔انسان کا مقام تو بہت بلند ہے۔بقول شاعر:

”درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو“

اس کے تناظر مں دیکھا جاۓ تو تسکین قلب کے لیے ہمدردی اور مساوات جیسے اوصاف سے خدمت اسانیت کی ضرورت ہے۔یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو لوگ دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں وہی اوج کمال کی بلندیوں تک پہنچ پاتے ہیں۔کیوں کہ بقول شاعر:

”متاعِ بے بہا ہے درد سوز آرزو مندی“

انسان کی قدروقیمت کا اندازہ اس کے حسنِ اخلاق اور اچھی عادات سے محسوس ہوتا ہے۔جو لوگ دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں وہ دنیا میں انسانیت سوز واقعات پر بے چین رہتے ہیں۔انسانیت کی معراج تو خدمت انسانیت ہے۔یہ تو قانونِ قدرت ہے۔بقول شاعر:

”اے زمیں اک دن تیری خوراک ہو جائیں گے ہم“

یہ بات مسلمہ ہے جو لوگ اوروں کے لیے زندگی وقف کرتے ہیں ان کی بہتری کے دروازے کھلتے رہتے ہیں۔یہ کائنات تو محبت کا گھر اور بستی ہے۔اس کا اوج کمال تو حسنِ اخلاق کے بہترین کمالات سے ہے۔بغور دیکھا جاۓ تو انسان کی زندگی اس پھول کی مانند ہے جو کھلتا ہے تو جلوہ آرائی کے بعد تپش آفتاب سے پژمردہ ہو جاتا ہے۔زندگی تو مختصر سا کھیل ہے۔اس لیے اسے با مقصد بسر کرنا اور دوسروں کا درد محسوس کرنا ہی کامیابی ہے۔اور بھی بے شمار مثالیں ہیں۔آج ایک المیہ ہے کہ سماج کے لوگ گروہوں اور گروپوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔نفرتوں کی آندھیوں کا زور ہے۔احساس برتری اور احساس کمتری کے الجھیڑوں میں زندگی ایک اداس پنچھی کی مانند معلوم ہوتی ہے۔انسانیت کے درد بانٹنا اور ظلم کے خاتمہ کے لیے کردار ادا کرنا ناگزیر ہے۔اگر محض دل کی دنیا بساتے رہے تو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے۔